جمعہ، 24 اپریل، 2015

کیا یہی دوستی ہے۔۔

0 comments
تحریر: سید عاصم علی شاہ

جدید دنیا میں زندہ قومیں اپنی  خارجہ پالیسی میں ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم رکھتی  ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کے لئے دوسرے ممالک سے تعلقات   کو بڑھایا جاتا ہے اور دوستی   کو مزید مضبوط کیا جاتا ہے۔ اچھے  دوستوں کو قربان کر کےنقصان تو اٹھایا جا سکتا ہے فائدہ نہیں۔مگر  یمن کے مسلے پر پارلیمنٹ  میں ہونے والی بحث سے لگتا ہے کہ ہماری نا سمجھی ہمیں لے ڈوبے گی اور ہم اپنے قابل اعتبار اور آزمودہ دوستوں کو کھو بیٹھیں گے۔ تین چار  دن کی اس بحث میں ملکی مفادات اور تعلقات سے متعلق پالیسی کے پرغیر محتاط انداز گفتگو اختیار کیا گیا۔ اس طرح پارلیمنٹ کے اندر اور باہر  قوم تین گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ایک وہ جن کی ہمدردیاں سعودیہ  عرب کے ساتھ ہیں  دوسرا انٹی سعودی طبقہ اور تیسرا گروہ  جو''صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں'' کے مصداق بظاہر  غیر جانبدار رہنے کا مشورہ دے رہا ہےمگر اندرون خانہ  دوسرے گروہ کا ہی ہم رکاب ہے۔  اول الذکرانٹی امریکن  مشہور ہیں جبکہ آخرالذکر  دونوں پرو امریکن۔
اس بحث کے دوران اکثر لوگوں کے چہرے کھل کر بلکہ دھل کر سامنے آئے۔  کیسے کیسے لوگ یہاں بھانت بھانت کی دانش سمیٹ کر لائے۔جو پارلیمنٹ میں تھے وہ  اندر  گرجے برسے اور جو  غیر پارلیمانی لوگ تھے وہ باہر نیوز چینلز اور اخبارات  میں بھڑکتے رہے ۔کسی نے سعودی جارحیت کا راگ الاپا، کسی نے ایرانی ناراضی سے ڈرایا،کسی نے اتحاد امت کے پارہ پارہ ہونے کی داستان سنائی۔ کسی نے اپنی خطابت کا رنگ جمایا اور کسی نے بخشو کاقصہ سنایا۔ اس ساری بحث میں اگر کسی نے معاملہ فہمی  ،سیا سی بصیرت  اور حقائق سے  بھرپور گفتگو کی ہے تو  وہ بی-این-پی کے چئیر مین محمود خان اچکزئی ہیں۔جنہوں نے پاکستان کے مسائل ،سعودیہ کے حالات  اور امت مسلمہ کو در پیش چلنجز  اور انکی وجوہات پر بات کی ۔مگر افسوس میڈیا نے انکے خطاب کو کوئی کوریج نہیں دی بلکہ یوں کہا جائے کہ جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا۔ورنہ جس میڈیا  کی نظر سے راجیش کھنہ کی بیماری  ،  رانی مکھر جی کا موٹاپااور ہالینڈ کی مرغی کے ساتھ کھیلنے والی بلی بھی نہ چھپ سکی اس نظر سے اچکزئی صاحب کی 30 منٹ سے زائد دورانیے کی اتنی اہم  گفتگو کیسےمس ہو گئی۔
صاحبزادہ حامد رضا  نے کہا کہ ہم حکومت کو پارلیمنٹ کی قرارداد سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے نہیں دیں گے۔صاحبزادہ صاحب نے واضح نہیں کیا  کہ وہ اسی غیر آئینی اور دھاندلی کی پیدا وار پارلیمنٹ کی قرار داد کی بات کر رہے ہیں جس کے باہر چار ماہ تک دھرنا مار کے بیٹھے رہے۔ایک اور  صاحب ہیں ایک ملک گیر مذہبی جماعت  کے سر براہ بھی ہیں۔ پاک آرمی کو پیشکش کر چکے ہیں کہ اگر اجازت ہو تو افغانستان جا کر طالبان کا صفایا کر دیں گے۔ مگر موصوف کو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کے خلاف لڑنے والے طالبان کا خیال نہیں آیاشائد کسی نے بتایا ہوگا  کہ یہ اصلی والے  طالبان نہیں ہیں اصل خطرہ تو سرحد پار  والے طالبان ہیں تو پھر نقلی طالبان بلکہ ظالمان  کے خلاف  اپنی توانائی کیوں صرف کریں بہر حال  اگر انہیں قوم کی تکلیفوں اور فوج  کی مشکلات  کا اتنا خیال تھا تو وزیرستان ہی چلے جائیں ۔ سنا ہےموصوف نے بھی سعودی عرب کی مدد کرنے کی مخالفت کر دی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ہم حرمین شریفین کے لئے تو جان بھی  دے سکتے ہیں مگر آل سعود  کی حکومت کے لئے نہیں۔اب انہیں کون سمجھائے کہ اللہ تعالیٰ نےہی  آل سعود کو حکمران بنایا ہے اور وہی خادم حرمین شریفین بھی ہیں اور سعودی سرحدوں پر حملہ در اصل حرمین شریفین پر حملہ ہے۔
قارئین کرام  میری باتیں  آپ کو شائد غیر مربوط محسوس ہوں مگر مدعا ایک ہی ہے۔کہانیاں مختلف مگر مقصد ایک ہی ہے۔  جب گیارہ ہزار تین سو کلو میٹر دور جب امریکہ کو افغانستان سے خطرات لاحق ہوئے تو  '' مُکا مینوفیکچرر انڈسٹری'' کے پہلے اور آخری روح رواں صدر پرویز مشرف المعروف بیک فون لم لیٹ سرکارنے لاجسٹک سپورٹ  کی پیش کش کردی اتنی عجلت اور سرعت سے کہ  فون کرنے والا وزیر خارجہ اور اعلٰی امریکی حکام تک حیران رہ گئے جس کا ذکرسابق امریکی  وزیر خارجہ  کولن پاول نے اپنی کتاب میں بھی کیا اسکے علاوہ  پارلیمنٹ سے لے کر میڈیا تک بہت سوں  نے انکی ہاں میں ہاں ملاکر  گویا قومی خدمت سر انجام دی مگر انہی دور اندیش لوگوں  میں سے کسی کو سعودی سرحدوں کی طرف بڑھتے حوثی  باغی  جو  دور مار مزائلوں سے بھی لیس ہیں شائد موسمی خرابی کے باعث  نظر نہیں آئے۔نہ ایران ے روزانہ کی بنیاد پر یمن جانے والی پروازوں کا علم ہوگا نہ باغیوں کے علاقوں میں  نام نہاد امریکی این-جی-اوز   کی سرگرمیوں  سے  آگاہی   ہو گی۔ جوصاحب فہم فراست  کل تک  افغانستان پر امریکی جارحیت پر بغلیں بجاتے تھے آج سعودیہ کا جارح کہہ رہے ہیں ۔ جناب کیا کہنے۔بھٹو اور ضیاء کی روس مخالف افغان پالیسی کے ناقدین امریکہ کے افغانستان پر حملے کےحامی تھے اور  آج بھی ہیں۔تب مخالفت اور یہاں حمایت ۔ یہ تضاد کیوں۔؟ خیر اسفند یار ولی  خان نے تو صاف کہہ دیا کہ یمن میں سعودیہ کی مدد کے نتائج ہمیں بلوچستان میں بھگتنے پڑیں گے۔ اور ہمیں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا؟
دوسری  طرف دیکھئے  کچھ لوگ سعودیہ کی مدد کرنے کے بجائے سعودی عرب  اور یمن کے درمیان ثالثی   کرانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔  لیکن جب امریکہ کی ذاتی خواہش پر  طالبان اور امریکہ کے درمیان قظر میں مذاکرات کا آغاز ہوا تو  یار لوگوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ۔بیچارے عمران خان بھی اسی طرز پر پاکستانی طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں مدد کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے پشاور میں طالبان کا  دفتر کھولنے کی تجویز  دی تھی پھر کیا تھا ''ثالث پسندوں  '' سے یہ برداشت ہی نہیں ہو کہ انکے علاوہ کوئی ثالثی کی بات کرے یا ثالثی کرائے-آخر انکی ثالثی آئی –ایس-او سرٹیفائیڈ ہے کوئی مذاق تھوڑی ہے۔انہوں نے کپتان صاحب کے وہ لتے لئے کہ خدا کی پناہ۔آج ثالثی  مگر کل ثالثی کی مخالفت ۔چہ معنی؟  اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا کے ۔تضادات کی داستان طویل ہے  کیا کیا بتا     ئیں۔
بات ہو رہی تھی قومی مفاد کی۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان  برادرانہ تعلقات کا آغاز 1947 ء میں قیام  پاکستان  سے ہوا۔ پھر یہ تعلقات ،1948 ، 1965 کی پاک بھارت جنگوں میں ہر آزمائش پر پورے اترے پھر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہو گیا حسب وعدہ امریکی بحری بیڑہ مدد کو  نہ آیا مگر عرب اس بار بھی مدد کو آئے۔  1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد  جب عالمی پابندیاں لگی تو عرب ملکوں  خصوصاً سعودی عرب  نے  چار سال تک  مفت تیل دے کر ہماری معیشت کوسہارا دئے رکھا۔1999 میں   کارگل وارہو یا دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی  پندرہ سالہ جنگ ،2005 میں آنے والا زلزلہ ہو یا 2010 کا تباہ کن سیلاب سعودی بھائی ہر موقع پر ہمارے شانہ بشانے کھڑے نظر آئے۔ انہوں نے کبھی دی جانے والی امداد کا حساب مانگا نہ بدلے میں کچھ چاہا۔نہ کبھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی نہ ہماری خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ عالمی سطح پر اور یو-این-او میں ہر مسلے پر پاکستان کی دو ٹوک حمایت کی۔ علاوہ ازیں 30 لاکھ سے زائد پاکستانی عرب ملکوں میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں جو اربوں ڈالر پاکستان بھیج کر ملکی معیشت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اور یار لوگ ان تعلقات کو شریف برادران کے ذاتی تعلقات  قرار دے کر رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے گزشتہ چند ہفتوں سے جاری  ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات  بلاآخر  نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ اور  ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔اس  معاہدے کے بعد ایران  ایٹمی اسلحہ نہیں بنا سکے گا۔بدلے میں ایران پر سے اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ایسا صرف اس لئے ممکن ہوا کہ ایرانی معیشت عالمی پابندیوں کے باعث مشکلات کا شکار تھی جس پر مجبوراً ایران کو سمجھوتا کرنا پڑا۔ مگر اپنے تمام تر مسائل اور بیرونی دباؤ کے با وجود پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام  کامیابی سے مکمل کیا   اس  عظیم کامیابی پر سیاسی وعسکری قیادتوں  کی ہمت   اور مستقل مزاجی  کی داد دی جانے چاہیئے کہ بھٹو کے شروع  کردہ  ایٹمی پروگرام کو باقی آنے والے تمام قیادتوں نے  اپنی ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھا ۔ مگر اس سارے عمل میں عرب ریاستوں خصوصاً سعودی عرب کے تعاون کا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔جنہوں نے  شروع سے لے کر آخر تک ہمہ قسمی تعاون کیا۔
یہ تعاون ، احسانات اور تعلقات اپنی جگہ  مگر سب سے بڑھ کریہ کہ وہاں مسلمانوں کے سب سے مقدس مقامات  حرمین شریفین واقع ہیں جن  کی حفاظت ہر مسلمان کے ذمہ ہے۔ ہم  کیا سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نہ گئے تو حرم کا دفاع   کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حرم کی حفاظت اللہ پاک  خود کر لیں گے جیسے ابراہ کے آنے پر کی تھی۔لیکن یہ ایک موقع ہے  اس سعادت کو پانے کا اور خوش نصیبوں میں اپنا نام لکھوانے کا۔اگر حرمین شریفین کی طرف غلط ارادے لے کر  بڑھنے والے  باز نہیں آ رہے تو ہم کیوں شرما رہے ہیں۔ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ  سعودی سرحدوں کی طرف بڑھتا خطرہ دراصل سرزمین حرمین کے لئے خطر ہ ہے۔جس کا دفاع سعودی عرب سمیت ہر مسلمان کا فرض ہے۔لہٰذا یمن کی طرف سے اٹھنے والے  خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
 مذاکراتی عمل  ضرور شروع کیا جانا چاہیئے مگر یہ بھی دیکھا جائے کہ دوسری پارٹی  مذاکرات کرنا بھی چاہتی ہیں کہ نہیں۔ انکی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، انکے مقاصد جاننے کی کوشش کی جائے۔انکے  منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کا دماغ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایرانی جنرل  کی طرف سے سعودیہ کو دی جانے والی واضح  دھمکی  یہ  ثابت کرتی ہے کہ ایران  یمن میں دلچسپی لے رہا ہے مگر ساتھ ہی یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ایران کی وہاں دلچسپی کیا وجہ  ہے اسے کس بات کی  جلدی ہے۔اگر حوثیوں کی منزل سعودی عرب نہیں تو انہیں  ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ امن چاہتے ہیں۔انہیں سعودی سرحدوں سے دور ہٹ جانا چاہیئے۔ہتھیار ڈال کر  مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیئے۔یاد رکھیں اگر سعودیہ عدم استحکام کا شکار ہوا تو کوئی مسلمان ملک نہیں بچے گا۔ اگر ہم حجاز مقدس کی حفاظت کرنے کےلئے راست اقدامات کے  بجائے تاویلیں گھڑنے بیٹھ جائیں گے تو سمجھ لیں دشمن اپنا منصوبے میں آدھا کامیاب ہو چکا ہے۔ سرزمین حرمین  مسلمانوں کی مذہبی اور ملی  وحدت کی نشانی ہے مسلمانوں پر غلبے کے لئے اس پر قبضہ ضروری ہے۔ جیسے سلطنت عثمانیہ   جو کہ خلافت  کا تسلسل اور مسلمانوں کی واحد طاقت تھی جس سے یورپ کے ایوان لرزتے تھے جب  غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی بے حسی کے باعث اس کا شیرازہ بکھرا تو اس کے  بعد مسلمان سنبھل نہ سکے اور  انہیں  سرحدوں کے نام پر  ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ  پھر وہی تاریخ  دہرائی جائے ہمیں ہر قدم  سوچ سمجھ کر  اٹھانا ہوگا۔

0 comments: