اتوار، 3 مئی، 2015

بخشو'' کے تخلیق کاروں سے چند گزارشات۔۔

0 comments


تحریر: سید عاصم علی شاہ

وسعت اللہ خان معروف کالم نگار اور قلم کار ہیں ہم جیسے ''قلم مار'' انکے آگے کیا بیجتے ہیں۔ خان صاحب  کالم پہلی بارروزنامہ ایکسپریس میں پڑھا  جو انکا بھی
 ایکسپریس میں پہلا کالم تھا۔ مگر چند کالم پڑھ کر محسوس ہوا کہ ان کے کالم''ا سپانسرڈ ''سے  لگتے ہیں پھر بی۔بی۔سی  جیسے  ادارے سے انکی وابستگی ہمارے اس شک  مزید پختہ کرتی ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس  نے 1965 ء کی جنگ میں لاہور پر ہندوستان کے قبضے کی خبر نشر کر کے پاکستانی عوام اور فوج دونوں میں بد دلی  اور مایوسی پیدا  کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ چند روز قبل خان صاحب کا کالم'' بخشو سب کا مگر بخشو کا کوئی نہیں'' پڑھا تو سر پر سے گزر گیا۔  بار دیگر پڑھا، ایک  دو مرتبہ اور پڑھا    مگر بات عقل کو نہ لگی ۔ میری سمجھ میں نہ آ سکا کہ یہ کسی حرماں نصیب کی داستان ہے یا کسی کف ''ہنر فروش'' کا قصہ ،کسی بخشو،جیدے یا چھوٹے  کی سادگی یا مجبوریوں کا بیانیہ   ہے یا سفید جُبے والوں کی مہربانیوں یا  پھر من مانیوں کی''شکایات خونچکاں ''ہے۔لیکن جب معروف چینلز پر بخشو کا کارٹون دیکھا اور محترم اعتزاز احسن   سے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران  بخشو کا ذکر سن کراتنی تو  بات سمجھ میں آئی کہ  یہ ضرور کوئی اہم بات ہے جو ہماری  ناقص عقل  میں آنے سے گریزاں ہے۔
ہم نے  اپنے محلے کے ایک ''دانشور'' سے وقت لے لیاکہ آخر  دانشو تو دانشور ہوتا ہے چاہے  کسی چینل کا ہو یا گاؤں دیہات کا۔ ہم نے جاتے ہی سوال پوچھ لیا کہ جناب یہ بخشو کون ہے  کہ جس کا ذکر پارلیمنٹ میں بھی ہو رہا ہےاورٹی وی پروگراموں  میں بھی۔ ان صاحب نے بلا تعامل  چائے   منگوائی۔صورتحال کی نزاکت اور  چائے  دونوں کا خیال کرتے ہوئے ہم سنجیدہ ہو کر بیٹھ گئے-  وہ گویا ہوئے کہ 1948  ء میں اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم  ڈیوڈ بن گوریان نے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے  ایک  سالہ بلونگڑے  کا اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا تو ساری دنیا حیران رہ گئی وہ  یک سالہ دشمن کوئی اور نہیں ہمارا پیارا  پاکستان تھا جو ایک نظریے کے تحت وجود میں آیا اور یہی نظریہ تھا جسے کی بنیاد پر اسرائیل نے ہمیں دشمن قرار دینے میں پہل کی ۔ یہودی چالاکی اور دوراندیشی کے قائل   استعمار ی پیادوں کو یہ بات آسانی سے ہضم تو نہیں ہوگی پھر بھی یہ  بتاتا چلوں کہ خیر و شر کے آخری معرکے میں مملکت خداد  کی سرزمین اور مجاہدوں کا اہم رول ہوگا۔ حضرت بری امامؒ نے   اس جگہ جہاں اب اسلام آباد موجودہ  ہے کے بارے میں فرمایا تھا کہ  یہاں  ایک شہر آباد ہوگا جہاں دنیا بھر کے  اہم فیصلے ہوا کریں گے۔
پھر فرمانے لگے کہ جس طرح  ایک شیرخوار کو دودھ  کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی ایک نوزائیدہ مملکت چلانے کے لئے  جن وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ موجود ہی نہ تھے جب پاکستان بنا تو  ہندوستان  نے  پاکستان کے حصے میں آنے والے اثاثے ادا نہیں کیئے اور ہمیں صفرسے  اپنا سفر شروع کرنا پڑا۔ تفصیل کا وقت نہیں مگر اتنا بتا دوں کہ لیاقت علی خان سمیت ہر بندہ اپنا کھانا گھر سے  ٹفن میں لاتا تھا  پہلے وزیراعظم  آفس کی میزیں  اینٹیں جوڑ کر اور  اس پر کپڑا ڈال کر بنائی گئی تھیں۔1948 ء میں ہی اسی فقر فاقہ کی حالت میں بھارت نے ہم پر جنگ مسلط کر دی اور کشمیر پر قبضہ کر لیا۔  پاک فوج کے انگریز جنرل کے بھارت پر جوابی حملے سے  انکار کے بعد دل ناتواں  سے جو ہو سکا کیا  انڈونیشیا کی تحریک آزادی کے لئے چھ سو سے زائد رضاکاروں کو بھجوانے والے قائد اعظم نے پٹھانوں کو حکم دیا انہوں نے کشمیریوں کے ساتھ مل کر موجودہ آزاد کشمیر   کا علاقہ واپس لے لیا۔ آزادی کے صرف اٹھارہ سال بعد 1965  ء میں ایک بار پھر بھارت رات کی تاریکی میں حملہ آور ہوا - نا مساعد حالات کے باوجود  پاکستان نے مقابلہ کیا عرب ممالک، شاہ ایران  اور انڈونیشیا نے کھل کر  پاکستا ن کی مدد کی اور پاکستان نے بھارتیوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے جس عمر میں وطن عزیز میں شناختی کارڈنہیں بنتا  ااس عمر میں  پاک سرزمین نے بھارت کو اپنی شناخت  اچھی طرح کروا دی۔
مگر صرف چھے سال بعد ہی ہمیں  دو قومی نظریے کےخلیج بنگال میں ڈوبنے کا طعنہ سنناپڑا۔جغرافیائی دوری ، عادتوں اور نیّتوں کے فرق کے ساتھ ساتھ  دشمنوں کی ہوشیاری کے باعث ہم اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے۔ادھر سویت یونین  سردی سے سکڑے سمٹے اژدھے کی  طرح گرم پانیوں کی  طرف پھن اٹھائے پھنکار رہا تھا۔ بھٹو جیسے جہاندیدہ سیاستدان نے  اس کے من کی بھانپ لی اور  افغانیوں کے کان میں پھونک  دیا کہ رشیا کسی بھی وقت افغانستان میں آ  دھمکے گا لہٰذا تیاری کر لی جائے۔  رشیا  افغانستان آیا  اور چھا گیا  اسکا اگلا قدم پاکستان میں پڑنے والا تھا۔ بھارت تو چاہتا ہی یہی تھا وہ بھی  بھوکے گیدڑ کی طرح گھات میں بیٹھ گیا ، ادھر ایرانی انقلاب پاکستانی سرحد پر ہچکولے لے رہا تھا یہ  وطن عزیز کی تاریخ کا مشکل ترین وقت تھا۔ پاکستان  بیک وقت  ان  سارے خطرات سے  بھی نمٹا  بلکہ مجاہدین کی مدد سے  رشیا کو بھی ٹکڑے ٹکڑے  کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا جس سے  وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ مشرقی یورپ بھی آزاد ہو گیا۔ اصو لاً آزاد ہونےے والی ان ساری ریاستوں کو پاکستان کا شکر گزار ہونے چاہئے۔
اس سارے عمل میں مسلم ممالک خصوساً عرب ممالک  نے کھل کر پاکستان کی مدد کی، امریکہ اور دوسرے روس دشمن ملکوں کو اس جنگ میں لے کر آنا پاکستان کی حکمت عملی  تھی  ۔افغان جہاد کو امریکی جنگ  کہنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ  اگر امریکہ اور روس دوست ہوتے تو امریکہ کبھی اس جنگ میں مجبوراً حصہ نہ ڈالتا جیسے وہ 1971 ء  میں نہیں آسکاتھا اور سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ اس دوران پاکستان نے نہ صرف اپنے افغان بھائیوں کی مدد بلکہ پچاس لاکھ افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ دی اور انہیں پورے ملک میں رہائش اور روزگار کی آزادی دی۔بہر حال اس دوران ہم نے نہ صرف ایٹم بم بنا لیا بلکہ ایک شاندار میزائل پروگرام بھی کھڑا کر لیا اس مقصد کے لئے عربوں نے خصوصاً سعودی عرب نے  اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔ اس   عمل میں عربوں  کی امداد کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمارے  منصوبہ سازوں اور افرادی قوت کے علاوہ  باقی سب عربوں کا فراہم کردہ تھا۔  
ادھر  سالوں کے خون خرابے کے بعد افغانستان میں طالبان کا کنٹرو ل ہو گیااور وہاں ایک اسلامی حکومت قائم ہو گئی جس نے  مثالی امن قائم کر کے قرون اولٰی کی یاد تازہ کر دی۔  پاکستان کے تمام مکاتب فکر حتیٰ کہ مولانا شاہ احمد نورانی ؒ  اور حافظ سعید صاحب  مسلکی اختلاف کے باوجود طالبان کے حامی تھے۔ سارے اسلامی ملکوں کا اس طرف رجحان دیکھ کر اہل مغرب کی ''کھٹیا'' کھڑی ہو گئی۔ انہیں   لگا کہ دجالی ٹولے کے''حزب اختلاف'' کا بیس کیمپ وجود میں آ چکا ہے۔ لٰہذا اپنے ''ٹوین ٹاورز'' کی قربانی دے کر  اسلامی دنیا کے دو اہم ممالک افغانستان اور عراق  ملیا میٹ کر دئیے گئے اور ''آفٹر شاکس ''کا سلسلہ گاہے بگاہے  ابھی تک جاری ہے۔اس جنگ میں افغانستان اور عراق کا جو نقصان ہوا سو ہوا مگر پاکستان کا بھی بیڑا غرق ہو گیا۔یہ ملک امن و  امان کوترس گیا زندگی لوگوں کے لئے ڈراؤنا خواب بن گئی پچاس ہزار سے زائد لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑ ھ گئے۔ مگر اب وقت بدل رہا ہے ۔ خیر سے ''انکل سام'' بھی افغانستان میں ویسی ہی حالت کو پہنچ چکا ہے جیسی کہ  ربع صدی قبل رشین فیڈریشن کی ہو گئی تھی۔ساتھ ہی وطن عزیز  کے طول عرض میں دھما چوکڑی مچانے والے استعمار ی گماشتے بھی  اپنے انجام  کو پہنچنے لگے ہیں۔ امید ہے کہ افغانستان کے بدلتے حالات اور وطن عزیز میں  پھیلنے والی امن و سکون  کی لہر '' یار لوگوں'' کی طبع نازک پر گراں گزر رہی ہوگی۔
آزادی سے لے کر اب تک اگر ہم اپنی  حالات، مشکلات  اور وسائل کی کمی کا جائزہ لیں اور اپنی کامیا بیو ں  پر بھی نظر ڈال لیں ۔ اپنے دشمنوں کی تعداد گن لیں اور دوستوں کو بھی شمار کر لیں۔ بنگال سے لے کر کوئٹہ تک اس قوم کے شہدا کے خون کے قطروں کا بھی حساب کر لیں۔۔ 47 ء کےمہاجروں سے لے کر وزیرستان کے آئی –ڈی –پیز کی نکل مکانی   تک انکی بے سروسامانی  اور غریب الوطنی کا احساس کر لیں۔ اینٹوں کی میز سے لے کر موجودہ پارلیمنٹ کی شاندار بلڈنگ تک کی تاریخ کا جائزہ لے  لیں ۔ قائد اعظم کی تقریب حلف برداری میں استعمال ہونے  والی  نواب صادق خان عباسی کی گاڑی سے شروع ہو کر موجودہ وزیر اعظم کے گاڑیوں کے قافلے  تک کو دیکھ لیں۔ قدرت اللہ شہاب سے لے کر وسعت اللہ خان تک حرمت قلم  کے  سوداگروں اور شہیدوں کی داستان پڑھ لیں۔ جنرل گریسی سے لے کر جنرل راحیل تک سپاہ کے کارناموں اور کالی بھیڑوں کا تذکرہ  اٹھا دیکھیں۔ توڑے دار بندوقوں سے لے کر  واہ فیکٹری اور ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا  تک کا فاصلہ ناپ لیں۔

اگر ذرا سا ایمان رکھنے والے ان چیزوں کا جائزہ لیں  تو مجھے یقین ہے کہ کوئی شخص اس قوم کی طرف انگلی اٹھانے کی جرات نہیں  گا۔ اسکی قربانیوں  اور کامیابیوں سے انکار نہیں کرے گا۔کوئی اس کے چند غداروں کی بنیاد پر ساری قوم کو مطعون نہیں کرے گا۔اتنی سخت حالات اور محدود وسائل کے ساتھ اس مقام تک پہنچنے والی قوم اور ملک کو بخشو، بھکاری یا بکاؤ مال قرار  نہیں دے گا ، عیاش حکمرانوں،  اسٹیبلشمنٹ  کے کرپٹ  عناصر ، نا اہل اور بے ضمیر اہلکاروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس بنیاد پر  اپنے خون پسینے سے اس ملک کی آبیاری کرنے والے صاف دامن سیاستدانوں، ایمان دار افسروں، فوج اور عام آدمیوں کی قربانیوں کو بھی بھلایا نہیں  جا سکتا۔ میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا، ایران، افغانستان ،روس  جیسے ہمسائے اگر کسی اور ملک کے ہوتے تو وہ بیس سال بھی مشکل سے چلتا۔ مگر اللہ کے فضل و کرم سے آپ ﷺ کی برکت سے بزرگوں کی دعاؤں  اور مسلم امہ کی امیدوں کے باعث  پاکستان قائم و دائم ہے اور رہے گا۔ لٰہذا بخشو جیسے کردار تراشنے والے اپنے بغض و عناد کے اظہار کا کوئی  اور مناسب طریقہ دریافت کر لیں۔  

0 comments: