جمعہ، 28 نومبر، 2014

سیدمنورحسن کابیان اور لبرل "مکتب فکر" کاردعمل۔۔۔

0 comments

 لاہور میں منعقدہ جماعت اسلامی کےعا لمی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سا بق امیر جماعت اسلا می سید منور حسن نے کہا ہے کہ ملک میں جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کا کلچر عام ہو جائے تو یہ ملک مشکلات سے نکل سکتا ہے۔ اس بیان پر دوسری سیاسی جماعتوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ خصوصاً ایم کیو ایم اور پی پی پی نے انکے بیان کو ملک میں خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ لڑائی کی کوشش قرار دیا۔
سید منور حسن کا بیان قابل وضاحت ہے جیسا کہ مولانا طاہر اشرفی نے بھی کہاہے  کہ اُ نہیں واضح کرنا چاہیے کہ یہ جہاد کس کے خلاف ھوگا موجودہ سسٹم کے خلاف یا اس سسٹم میں موجود لوگوں کے خلاف۔ اس کی وضاحت بہرحال آنی چاہیئے۔
من حیث القوم ہمارا رویہ ایسا ہو چکا ھے کہ ہم کسی کی بات سننا چاہتے ہیں نہ سمجھنا چاہتےہیں۔ با الفرض اگر کسی بات کی وضاحت درکار ہے تو سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر اپنے مفادات کی جنگ لڑنے والے سطحی سوچ کے حامل ھوتے ہیں۔ وہ صرف وہی  سوچتے ہیں جس میں انکا مفاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب سے ترجمان کا منصب اداروں کا لازمی جز ٹہرا تب سے لفظوں کا استعمال اور باتوں کے مطلب بدل گئے ہیں۔ لچھےدار وضاحتیں، پہلودار گفتگو، بے جوڑ حقائق اور سفید جھوٹ پر مبنی بیانات۔ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور پالیسیوں کے تسلسل کے لیے وہ راگ الاپا جاتا ہے کہ آقا مدنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ حدیث یاد آ جاتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ جب جھوٹ اتنا بولا جائے گا کہ سچ کا گمان ہونے لگے گا۔
یہاں مسلہ صرف سید منور حسن کے بیان کا نہیں اصل خرابی مختلف الخیال گروہوں کی اپنی اپنی موقف کے حوالے سے انتہاپسندی ھے۔  مذ ہبی اور لبرل انتہا پسند عموماً ایک دوسرے کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارا مزہب مسائل پیدا نہیں کرتا بلکہ ان کا حل پیش کرتا ہے۔لیکن اگر دونوں طبقات کی بات سنی جائے تو انکے پاس اپنی فکر و عمل کے حوالے سے وضاحتیں اور دلائل موجود ہیں جو ایک دوسرے کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں مگر دوسرے لوگوں کے الزامات ماننے کو تیار نہیں۔ پھر یہ فیصلہ کیسے ھوگا کہ کون کس کام کا زمہ دار ہے۔؟
مزہبی طبقہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو میڈیا پر بھر پورموقع بھی ملتا ہے جبکہ مذہبی رہنماوں کو اپنے موقف کی وضاحت کرنے کاپورا موقع نہیں دیا جاتا۔ اگر کسی پروگرام میں انہیں بلا لیا جائے تو صورتحال یہ ھوتی ھے کہ چار پانچ لبرلزمع اینکر ایک مولوی کو گھیرے ھوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بحث کے نتیجے تک پہنچنا مشکل ھوتا ہے چنانچہ عام آدمی ہمیشہ دیندار لوگوں سے متعلق میڈیائی پراپیگنڈے کا شکار رہتا ھے۔
ایک سوال میرے ذہن میں ہمیشہ کلبلاتا رہتا ہے کہ کیا انتہا پسندی صرف مذہبی طبقے کے ساتھ مخصوص ھے یا لبرلز بھی انتہا پسند ہوتے ہیں۔؟ اس سوال کے تناظر میں اگر لبرلز کی سوچ، حرکات و سکنات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ ان باتوں کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہم جماعت اسلامی کے جماعتی ڈھانچے اور نظام کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ہم آسانی سے اپنے سوال کا جواب تلاش کر سکیں۔
یہ بات بین الاقوامی اور ملکی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ جماعت اسلامی ملک میں فوج کے بعد سب سے منظم جماعت ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ قیادت اور کارکن اس جماعت کے پاس ہیں۔ امیر اور دیگر عہدے داروں کا انتخاب شفاف ترین الیکشن کے بعد ہوتا ہے جماعت موروثی سیاست کے خلاف ہے اور آج تک کسی امیر نے اپنے بچے کو امیر منتخب کرنے یا کرانے کی کوشش نہیں کی۔ جماعت اسلامی کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ تمام دیگر قابل زکر سیاسی جماعتوں کو کئی اہم سیاست دان جماعت کے فراہم کردہ ہیں یعنی وہ لوگ جو جماعت کو چھوڑ کردوسری جما عتوں میں گئے ہیں وہ اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر آج اہم زمہ دارعہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ وہ لوگ جماعت کو کیوں چھوڑ گئے۔  سب سے اہم اور قابل زکر بات یہ ہے کہ جماعت کے کسی رکن اسمبلی پر آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔ یہاں سے ہمارے مطلوبہ جواب کا آغاز ہوتا پے۔
کہ اتنی خوبیوں کے باوجود آج تک جما عت اسلامی کسی بھی الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے حکومت نہیں بنا سکی۔ آخر کیوں۔؟ ہمارے ہاں ایک اچھا آدمی یا جماعت صلاحیت واہلیت کے با وجود الیکشن کیوں نہیں جیت سکتی۔ یہ جماعت کی نہیں ہمارے معاشرےاور سسٹم کی ہار ہے۔ اگر ہم اس نظام سے تنگ ہیں اور اسکی درستگی چاہتے ہیں تو پھر اس خرابی کے زمہ داروں کے تعین اور ان سے گلو خلاصی کرانے میں کیا چیز ما نع ہے۔ منور حسن کے بیان پر تنقید کرنے والوں کو اشتعال انگیز بیانات دینے کی بجائے ٹھنڈے دل سے اس نظام کی درستگی سے متعلق سوچنا چاہیئے۔ اب جبکہ انکی وضاحت بھی سامنے آ گئی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ  کے کلچر سے انکی مرادایک ایسا چلن اور جدو جہد ہے جس کا مقصد اللہ کی رضا ہو۔ یعنی سیا ست ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی ہمارا مقصود محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیئے۔ ایمانداری اور اخلاص سے ہی معاشرے اور نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مگر اس عمل میں کیا چیز روکاوٹ ہے؟
کیا اقتدار کی غلام گردشوں کے رسیا اور کرپٹ سیاست دان ،انکی ہمنوا اشرافیہ اور قوم کا خون چوستی سرکاری نوکری یافتہ جونکیں قابل احتساب نہیں۔ اس ملک میں کرپشن، بے ایمانی، اقربہ پروری، رشوت ستانی کے کلچر کو فروغ دینے والا کون ہے ۔ کیا ان خرابیوں کا باعث مزہبی طبقہ ہے؟ اگر نہیں تو ہم ان سے نالاں کیوں رہتے ہیں اور ہر بار دین بیزار لوگوں کو کیوں چن لیتے ہیں۔ اس ملک کے حالات کے زمہ داروں کا احتساب کون کرے گا ؟  
یہ وہ سوال ہیں جو سسٹم کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور نظام تب درست ہوگا جب اس نظام کو چلانے والے لوگ بدلیں گے۔ افغان طالبان سے کئی باتوں پہ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن انکی حکومت کے 7 سال مثالی تھے یہ بات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ طالبانی دور میں امن، سکون، عزت، برکت تھی۔ نہ کوئی ظالم نہ کوئی مظلوم۔ جو حاکم تھے عوام کے خدمت گزار تھے۔
 لبرل نظام جمہوریت کوداغ دار کرنے والے یہی لبرل لوگ ہیں جو اس نظام کا سہارا لے کر اپنی خواہشات، اور ہوس کی تسکین میں مصروف ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نظام کی درستگی کے لیے درست لوگوں کا انتخاب ضروری ہے۔ اپنے زمہ امور کی بہتر انجام دہی تب ہی ممکن ہے جب نگرانی اور احتساب کا شفاف نظام قائم کیا جائے گا۔

سعودیہ اور افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاز کے خوشگوار اثرات اور نتائج  دنیا نے دیکھے ہیں۔ اسلام سے بڑھ کر شفاف مکمل، انسان دوست اور  انصاف پر مبنی نظام کوئی اور نہیں ھے۔ اور اب دنیا میں امیر ترین مسلم ریاست برونائی دارالسلام کے بادشاہ سلطان حسن البلقیہ نے ملک میں شرعی سزاوں کے نفاز کا اعلان کر کے دنیا کو بتا دیا ہے کہ عافیت اور بھلائی اسی نظام حیات میں ھے۔ پاکستان کا آئین اسلامی ہے صرف اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہو نا شروع ہو جائے تو نتائج حیران کن حد تک مختلف ہو سکتے ہیں۔

جمعرات، 20 نومبر، 2014

تھر اور ہمارے اجتماعی احساس کی موت

0 comments


  تھر سندھ  کاموت اُگاتا صحرا اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی مشترکہ بے حسی۔ خصوصاًحکومت سندھ  کا غیر سنجیدہ رویہ قابل مذمت ہی نہیں قابل گرفت بھی  ہے۔ اگران کے بیانات پڑھے جا ئیں تو شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کو  اس  معاملے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ایسے لگتا ہےکہ تھر  وفاق کی عملداری  میں نہیں  آتا۔
 حضور اکرم   صحابہ کرام  اور  اولیاء  اللہ  کے معمولات  زندگی کا  مطالعہ کیا  جائے تو یہ بات جا بہ جا پڑھنے  کو ملے گی کہ جب بھی کوئی حاجت مند آتو تو  خالی  واپس نہ جاتا تھا حتیٰ کہ کئی روزہ  فاقے کے باوجود اپنا دسترخوان پہ موجود روکھا سوکھا کھانا  بھی صدا دینے والےکو بھجوا دیا جاتا۔                                                                                                                                      مگر یہاں کئی برسوں سے بھوک جھیلتی  مائیں  اور انکے فاقہ زدہ رحموں میں پلتی نئی زندگیاں جو ماوں  کی  کوکھ سے خوراک کشید کرنے کے حق سے محروم کر  دی  گئی  ہیں۔ زچگی  جیسے پیچیدہ  اور جان لیوا عمل کے بعد خوراک اور ادویات  کی عدم دستیابی نے اس مبارک عمل کو  ایسے  جرم میں  بدل  دیا  ہے جس کی  سزا  فاقہ کشی اورکسمپرسی کی موت ٹہری۔
           دوسری طرف ارباب اختیار کے دمکتے چہروں، بھرے پیٹوں، پیسے سے لد پھد  بنک اکا ونٹس، آسودہ حال زندگی کی رنگا رنگی سے ظاہر ہے کہ وہ موت تو کیا خدا کو بھی  بھلا  بیٹھے  ہیں۔ موت کے شکنجے  میں جکڑے  اپنے  ووٹرز  کی  حا لت  زار  پر لفظی تعزیت کے سواء  کچھ نہ کر رہے۔ دیگر سیاسی جماعتیں پریس بریفنگ کے  ہتھیار  کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہی  ہیں۔
               حکومتی ادروں  کی سرگرمیاں محض  خانہ پری  ہے ناقص  غذا  اور  ادویات  اوراس  بڑھ  کر اہلکاروں کا  توہین آمیز رویہ ۔رہی انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں  تو انکی  پھرتیاں بس اس حد تک ہیں  کہ  فوٹو بن جائیں تاکہ ڈونرز مطمئین رہیں۔ اگر تھر کے  باسیوں کے لیے کسی کی کوششیں قابل ستا ئش ہیں تو وہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے  والی  فلاحی تنظیمیں ہیں جنھوں نے  بلا تفریق مذہب شاندارکام کیا  ہے ۔ وفاقی  اور صوبائی حکومتیں اگر ایمرجنسی  نافذ کر کے مناسب اقدامات کرتیں  تو  نتیجہ  یقییناً  مختلف ہوتا۔ مگر  ابھی تک یہ حال ہے کہ  ادویات تو  ایک طرف پانی  اور کھانا  ملنا بھی محا ل ہے۔

             صرف  تھر نہیں ملک میں موجود باقی ریگزاروں  مثلاً چولستان تھل اور  بلوچستان کا  صحرائی علاقہ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ ارباب اختیار سے درخواست ہے خدارااس صورتحال سے  نمٹنے کے لیے سنجیدہ 
  اقدامات کیے جائیں۔                         

بدھ، 19 نومبر، 2014

تعارف

0 comments

میرا نام سید عاصم علی شاہ ہے۔ میرا تعلق مظفر گڑھ سے ھے۔ مطالعہ کا شوق بچپن سے ہے۔ مذ ہب، تاریخ، ادب اور سیاست خاص دلچسپی کے مضامین ہیں۔ دوستوں کی تحریک پہ اپنا بلاگ بنایا ہے تاکہ وہ باتیں جو ہم سمجھتے ہیں کہ دوسروں تک پہنچائی جانی چاہیئے وہ آسانی سے پہنچائی جا سکتی ہیں۔۔۔