ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید بچوں کے نام ۔۔

0 comments

                         
یہ کون ظالم ہے۔۔۔
 جو گُلوں کو مسل گیا ہے۔
یہ کون خودغرض آدمی ہے،
 جو خوشبووُں کو جکڑ گیا ہے۔۔

شفق کی لالی اداس بے دم،
ہیں بلبلیں بھی نڈھال و پرنم،
کہ جس سے شاخیں جھلس گئی ہیں ،
لگا کے ایسی نظر گیا ہے۔۔

نہ سوندھی سوندھی زمیں کی خوشبو،
نہ اجلا اجلا چمن کا سبزہ،
ہر ایک غنچہ لہو لہو ہے،
یہ کیسے بادل برس گیا ہے۔۔۔

نہ ہی کلیوں کے شوخ رنگ ہیں،
نہ پرندوں کا چہچہانہ،
آج غارت گروں کے ڈر ،
سارا گلشن سہم گیا ہے۔۔۔

نہ ہی شبنم فضا سے اتری،
نہ ہوا اپنے گھر سے نکلی،
نہ ہی سورج کی کرن چمکی،
نہ کلی کوئی آج چٹخی،
آج تم جو  نہ مسکرائے،
نظام قدرت بھی تھم گیا ہے۔۔۔


منگل، 16 دسمبر، 2014

کھیل میں حکومتوں کی مداخلت اور قومی ہاکی ٹیم کا قصہ۔۔

0 comments

                                                 کھیل کسی قوم کی تہذیب اور ثقافت کا لازمی جز ہوتے ہیں ۔ جدید دنیا میں کھلاڑی اپنے ملک اور قوم  کا چہرہ سمجھے جاتے ہیں۔ اسی لیے اپنی تہذیب ثقافت اور  سوفٹ امیج کے اظہار کے لیے ہر ملک  اپنی قومی علامات کا تعین کرتا ہے  مثلاً قومی کھیل ، قومی پرندہ قومی پھل پھول  اور پکوان  وغیرہ۔  پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے۔ پاکستان چار بار ورلڈ چمپیئن رہ چکا ہے۔ اسکے علاوہ قومی ٹیم بے شمار  میڈلز ٹرافیاں  اور نقد انعامات جیت چکی ہے۔پچھلے کئی سال سے  قومی ہاکی ٹیم زوال کر شکار ہے۔اسکی وجوہات کی تفصیل  انشا اللہ پھر کسی نشست میں بیان کروں گا۔فی الحال میرا موضوع قومی ہاکی ٹیم کا دورہ ہندوستان ہے۔ جہاں ٹیم نے چمپیئنز ٹرافی  میں شرکت کی۔قومی ہاکی ٹیم نامساعد حالات اور حکومتی بے توجہی کے باوجود انڈیا میں منعقدہ چمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں پہنچ گئی۔ مقابلہ تو دل نا تواں نے خوب کرنا تھا مگر انڈیا کی روایتی دشمنی اور ایف آئی ایچ کاجانبدارانہ روّیہ آڑے آ گیا۔  جس کے باعث ہماری پوری ٹیم کو "لائن حاضر" ہونا پڑا۔

قصہ  کچھ یوں ہے کہ سیمی فائنل میں انڈیا کا جوڑ پاکستان کے ساتھ پڑا انہیں ہوم گراونڈ  کا فائدہ ہونے کے  ساتھ کراوڈ کی بھر پورحمایت حاصل تھی  ہندوستانی  ٹیم جس اعتماد سے میدان میں اتری اسی اعتماد سے کھیلی بھی۔ مگر روایتی حریف سے مقابلے میں پاکستانی شاہینوں کی پرواز بھی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ کھیل کے آخری لمحات  تھے مقابلہ تین تین گول سے برابر تھا    دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں کھیل ختم ہونے سے دو منٹ قبل پاکستانی ٹیم نے چوتھا گول کر کے  جیت کا رخ اپنی جانب موڑ لیا۔ مقررہ   وقت ختم ہوا تو پاکستانی ٹیم نے جیت کا جشن منایا گو کہ کچھ کھلاڑی زیادہ جذباتی ہو گئے تھے مگر انہوں نےکوئی  غیر اخلاقی حرکت نہیں کی۔انڈین ٹیم ، انڈین ہاکی فیڈریشن اور میڈیا سے پاکستانی جیت اور پھر جشن ہضم نہ ہوا۔ اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انہوں نے انٹر نیشنل ہاکی فیڈریشن (ایف آئی ایچ) سے اس کی شکایت کر دی جس کا جائزہ لے کر  انڈیا کا اعتراض مسترد کردیاگیا ۔ مگر انڈین مینجمنٹ  اور میڈیا نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے آئی ایچ ایف کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا جس کے نتیجے میں دو اہم پاکستانی کھلاڑی فائنل میچ کھیلنے سے محروم کر دیے گئے۔ جس کا باقی ٹیم پر برا اثر پڑا۔ اس  ظالمانہ  فیصلے سے کھلاڑیوں  کا مورال ڈاون ہوا  اور انجانے خوف نے انکی کارکردگی کو زنجیر ڈال کر محدود کر دیا۔ جس کا نتیجہ قومی ٹیم کی جرمنی سے ہار کی صورت میں نکلا۔

یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے قبل بھی اس طرح کے فیصلے ہو چکے ہیں۔ افسوس کہ کھیل میں سیاسی دخل اندازی نےاس کا حسن بگاڑ دیا ہے۔ 2011 کے ورلڈ کپ سے قبل سلمان بٹ، آصف اور عامر کو فکسنگ اسکینڈل میں ٹریپ کرنے اور  پابندی لگوانے کے پیچھے بھی انڈین مائنڈ سیٹ کام کر رہا تھا۔ یہ تین کھلاڑی جیسا پرفارم کر رہے تھے اگر یہ ورلڈکپ میں قومی ٹیم کا حصہ ہوتے تو پاکستان یقیناً ورلڈ چمپیئن ہوتا۔  اسکے علاوہ  ورلڈ کپ کے  دوران ایمپائرز کے کئی جانبدار فیصلے پاکستانی ٹیم کی راہ میں مزاہم ہوئے۔ سیمی فائنل میں 13 کے انفرادی اسکور پر ٹنڈولکر واضح   ایل بی ڈبلیوآوٹ ہوئے مگر ڈی آر ایس سسٹم  رزلٹ کو کمپیوٹر کی مدد سے تبدیل کیا گیا اورمڈ وکٹ کے جانب جاتی لائن کو  ہاک آئی HAWK EYE)  )  نےبڑے بھونڈے انداز میں آخری وقت میں لیگ اسٹمپ  کی جانب موڑ دیا  اور  ٹنڈولکر ناٹ آوٹ قرار پائے اور 83 رنز کی انگز کھیل کر ہندوستان کو بڑا مجموعہ  بنانے میں مدد دی۔ کرکٹ کے کرتا دھرتا جو کرنا چاہتے تھے کر چکے تھےمگر دنیا بھر نے جو دیکھنا تھا دیکھ لیا۔ اس پر نہ صرف ساری دنیا میں خاص کر انڈیا میں کئی تجزیہ نگاروں نے سوال اٹھائے اور اپنی تحریروں اور ٹنڈولکر کے آوٹ ہونے کی تصاویر کے ساتھ پوری دنیا پر ہندوستان کی حقیقت کھول دی۔ اس سارے عمل میں آئی سی سی نے انڈیا کی لونڈی کا کردار ادا کیر کے خود کو متنازعہ بنا لیا۔ اگر ٹنڈولکر کو آوٹ قرار دے دیا جاتا تو وہ میچ پاکستان کے لیے آسان ہو جاتا۔

 اب 2015 کا ورلڈکپ قریب ہے تو انڈیا اور اسکے اتحادی پاکستان مخالف لابی نے  سعید اجمل اور حفیظ کے باولنگ ایکشن پر اعتراض کر دیا ہے جس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ نادیدہ طاقتیں پاکستان کے عالمی کردار کو دھندلانے اور اور دنیا میں اسے ناکام ریاست ثابت کرنے کے لیے ہر حربہ آزما سکتی ہیں چاہے وہ کھیل کا میدان ہی کیوں نہ ہو۔

  غیروں کا کیا گلہ کریں یہاں اپنی حکومت  نے قومی کھیل کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ یورپ کے کئی دورے محض وسائل کی عدم دستیابی کے باعث ملتوی کرنا پڑے۔ اس مر تبہ بھی چمپیئن ٹرافی میں شرکت کے لیے جیوسوپر پر اپیل کرنا پڑی   کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک طرف ہاکی  قومی کھیل ہے اور دوسری طرف اس کے ساتھ ایسا روّیہ۔ قومی ہاکی ٹیم کے کپتان عمران خان کا شکوہ بجا ہے کہ ہم ےیتیموں کی طرح انڈیا کھیلنے گئے۔  اگر ندیم عمر اور ملک ریاض جیسے لوگ آگے نہ آتے تو قومی ٹیم  انڈیا نہ جا سکتی۔ بہر حال قومی ٹیم نے سولہ سال بعد چاندی کا تمغہ جیت کر ناقدین کے منہ بند کر دیئے۔  حیرت ہے کہ چار ورلڈ کپ جیتنے والی قومی ہاکی ٹیم سے حکومت کا امتیازی روّیہ  اور دوسری جانب کرکٹ ٹیم کے لیے انعامات اور نوکریوں کے مواقع ۔

یہاں موقع تو نہیں مگر بات کہے بغیر کوئی  چارہ نہیں۔ قومی بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے ریکارڈ یافتہ کھلاڑی جنہوں نے 262 رنز کا سب سے بڑا انفرادی سکور بنانے کا ریکارڈ بنا یا۔ انہیں حکومت نے دس ہزار وپے دینے کا اعلان کر کے اس صدی کا سنگین ترین مذاق کیا۔ اس کے علاوہ ورلڈ سنوکر چمپیئن محمد آصف  کوجو انعامات دینے کا اعلان ہوا تھا وہ آج تک پورا نہیں ہوا۔ اگر حکومت اور متعلقہ حکام  کا یہی روّیہ رہا تو  پھر کھلاڑی کیسے اور کس کے لیے کھیلیں گے۔۔

غالب  نہ کر حضور  میں تو  بار  بار عرض،
ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر۔۔

ہفتہ، 13 دسمبر، 2014

سوشل میڈیا پر بڑھتاہواایک خطرناک رجحان۔۔۔

0 comments

                         آج کے دور میں انٹرنیٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں اداروں اور شخصیات کے ذاتی و کاروبروابط میں بہتری اور تیزی آئی ہےوہیں تعلیمی اور تحقیقی مواد تک بہ سہولت رسائی نے اسکی اہمیت تمام طبقات میں یکسر بڑھا دی ہے۔ آج کل سوشل ویب سائٹس کا  استعمال بڑھ گیا ہے اسے عرف عام میں سوشل میڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ لوگ یہاں نت  نئی شخصیات اور رجحانات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں  اسکے علاوہ  لوگوں کو  اپنی پسند اور دلچسپی سے متعلق ویڈیوزاور تصاویر کو اپلوڈ کرنے سے لے کر ان پر تبصرہ اور شیئر کرنے تک کی آزادی میسر ہے۔ ایسی  ویب سائٹس میں فیس بک سب سے معروف ویب سا ئٹ کے طور پر سر فہرست ہے۔ اسکے  فوائد اپنی جگہ مگر ایک خطر ناک عادت میں بھی اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ وہ ہے  دوسروں کے مذہب، عقائد اور سیاسی اور سماجی  رجحانات پر تنقید۔ جدیددنیا خصوصاً  ادب میں تنقیدچیزوں کی بہتری میں مددگار ہے۔مگریہاں تنقید کا طریقہ کار  انتہائی نا پسندیدہ ہے۔
                  آقا مدنی کریم ﷺ کے فرمان عا لیشان کا مفہوم ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا جب لوگ اپنے ماں باپ کو گالیاں دیں گےصحابہ کرام نے دریافت فرمایا کہ آقا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالیاں دے سکتا ہے؟ رحمت اللعالمین  ﷺ نے فرمایا جو  دوسروں کے ماں باپ کو براکہے گا جواب میں اس کے ماں باپ کو برا بھلا کہا جائے گا۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کسی کے بڑوں یا پیاروں کو برا کہا جائے تو جواب میں تمہارے بڑوں کو بھی برا کہا جائے گا۔ دوسرے چاہےحقیقتاً برے ہی کیوں نہ ہوں اگر  کوئی انہیں برا کہے گا یا گالی دے گا تو جواب میں تمہارے اچھے لوگوں کو وہی کچھ کہا جائے گا۔اس حوالے سے درد دل رکھنےوالے لوگوں کا موقف ہے کہ اس عمل سے پرہیز کیا جائے اور ایسا کرنے والوں  کی  حوصلہ شکنی  کی جانی  چاہئے۔ یہ چیز آزادی اظہار رائے کے ضمرے میں نہیں آتی بلکہ قابل تعزیز جرم ہے۔
                ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ جو ہمارے بڑوں کا احترام نہیں کرتا اور ہمارے چھوٹوں پہ شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ کیا ہم محض اپنی حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے آقا مدنی کریم ﷺسے تعلق توڑ سکتے ہیں۔  دوسروں کے بڑوں کو برا کہہ کر اپنے بڑوں پر لعن طعن کرنے کا موقع فراہم کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ اہل علم لوگوں اور صاحب نظر بزرگوں کا کہنا ہے کہ علماء کرام کا گستاخ ایمان پر نہیں مرتا۔ احتیاط اس قدر ہے کہ کسی عالم دین  کے جوتے کو جان بوجھ کر ٹھوکر مارنا بھی گستاخی ہے۔ مختلف مکاتب فکر کا آپس میں اختلاف اپنی جگہ مگر فیس بک پر ایک دوسرے کی محترم شخصیات پر کیچڑ اچھالنے والے لوگوں سے التماس ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں سے پرہیز کریں۔ نجانے کون سا بندہ گنہگار ہے اور کون  اپنے مالک کے کتنا قریب ہے ہم کیا جانیں۔ اس لیے احتیاط لازم ہے۔ جس نے جیسے اعمال کیے ہوگے ویساصلہ پائے گا۔ مگر ہماری احتیاط  آخرت میں ہمیں ضرور فائدہ پہنچائے گی  اور دنیا میں بھی ہم ان  چیزوں سے بچے رہیں گے جو فتنہ و فساد کا باعث بن رہی ہیں۔
                    اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکی محترم شخصیات سے متعلق کوئی غلط بات نہ کرے ان کی تصوریں نہ بگاڑیں ان کےالٹے سیدھے نام نہ رکھیں  تو اس سلسلے میں آپ کو بھی احتیاط برتنا ہوگی۔ اگر کوئی  ایسا کرتا ہے تو ہمیں  جواب دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس طرح کے معاملات پر قانونی  نافذ کرنے والے  اور پی ٹی سی ایل  جیسے  متعلقہ اداروں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔پاکستان میں مختلف مذاہب اور مسالک اور قوم قبیلوں کے لوگ رہتے ہیں۔ دہشت گردی کے پیش نظر ملک کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے  ہمیں صبر کا دامن تھام کر اپنی سی ایک کوشش کر نی چاہیے اورجس کے  صلہ ہم خدا سے ضرور پائیں گے۔


منگل، 9 دسمبر، 2014

دو چہرہ لوگ۔۔

0 comments

      انسانی تاریخ میں منافقت ایک ایسا روّیہ  ہے جوکبھی کسی جماعت' ادا رے   یا شخصیت کی  پالیسی یا ادارہ جاتی قانون کا باقاعدہ  حصّہ نہیں بنا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکا  غیر اعلانیہ استعمال بڑھتا  رہا۔ دور نبویﷺ میں اس روّیے کے حاملین کو منا فقین کہا گیا۔ مگر دور حاضر میں یار لوگوں نے اس کے معنی  و مفہوم  ہی بدل دیے اب جب دل چاہے جس کو چاہے منافق کہہ دیا جاتا ہے۔
    میرے  محترم سید               انورمحمود نےمیرے مضمون "سید منور حسن کا بیان اور لبرل مکتب فکر کا رد عمل" کے جواب میں اپنا مضمون ارسال فرمایا  میں انکا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے نو آموز لکھاری کے مضمون کو قابل توجہ جانا اور اسکے جواب میں اپنا مضمون بھیجا۔  اس مضمون میں جہاں  انہوں نے کچھ سچی باتیں کی وہاں حقائق سے نظریں چراتے  ہوئے مذہبی طبقے کو با العموم اور طالبان سمیت سید منور حسن کو بالخصوص نشانہ بنایا۔ لگے ہاتھ انہوں نے مجھے بھی منافق قرار دے دیا۔ ان کا مضمون اندھی مخالفت اور حقائق سے چشم پوشی کا غماز ہے۔         
    شاہ صاحب پڑھے لکھے آدمی ہیں یقیناً منافقت کےمطلب  ومفہوم سے بخوبی آگاہ ہونگے۔ پھر اس کے استعمال میں اس قدر بے احتیاتی کیوں؟ میری ناقص معلومات کے مطابق منافق وہ  انسان ہوتا ہےجو دل میں سوچتاکچھ اور ہے مگرجب  بات کرتا ہے تو محفل یا سامع کے موڈ کے موافق ۔یعنی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔ میرا جماعت اسلامی اور منور حسن سے کوئی کا تعلق نہیں ہے۔ نہ میرا مضمون ان کے بیان کے دفاع یا مخالفت میں تھا۔  میں نے بس ان کے بیان کو بنیاد بنا کر وہ باتیں کہہ دیں جن سےآج تک ہم چشم پوشی کرتے رہے ہیں۔ مثلاً میں قادری صاحب  اور عمران خان کی انقلاب و آزادی مارچ اور دھرنےوالی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتا مگر ان کے بیشتر مطالبات کی حمایت کرتا ہوں  کہ حکومت ان پر غور کرےمیری اس سوچ کے  حوالے سے اگر کوئی میری اس بات پر اعتراض کرے اور مجھے منافق کہے تو    عجیب بات ہے۔
  میرا مقصد ہمارے معاشرے اور نظام میں موجود  ان خرابیوں  کا ذکر کرنا تھا جو ناسور بن کر ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ میں نے ان نام نہاد  لبرل لوگوں کے سامنے یہ سوال اٹھایا کہ جب نظام حکومت ہم ہی جیسے لوگوں کے پاس ہے تو اس کی خرابیوں کے ذمہ دار بھی ہم ہی لوگ ہیں نہ کہ کوئی اور۔    
  پہلی بات تو یہ کہ مقامی  طالبان جو پاکستان میں دہشتگری میں ملوث ہیں انہیں طالبان نہیں کہنا چاہئے۔ دہشتگرد کہیں یا ظالمان کہیں خواہ کچھ اور۔کیونکہ اس سے افغان طالبان پر بھی حرف آتا ہے ملا عمر پہلے ہی ان پاکستانی دہشتگردوں  سے تعلق کی تردید کر چکے ہیں جو پاکستانی کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آج تک افغان طالبان نے کوئی سرحدی خلاف ورزی نہیں کی نہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو کوئی نقصان پہنچایانہ پاکستان مخالف سرگرمیوں کی حمایت کی۔ روس افغان جنگ صرف  افغانستان  کی نہیں بلکہ پاکستان کی بھی حفاظت اور بقا کی جنگ تھی۔ مگر ہمارا دہرا معیار دیکھیں  کہ اگر افغان مجاہد اور القائدہ روس سے لڑیں تو مجاہد اور امریکہ کے خلاف لڑیں تو دہشتگرد۔
  جس جہاد کشمیر کا آغاز قائداعظم کے حکم پر قبائلیوں نے کشمیریوں کے ساتھ مل کر کیا تھا جس کے نتیجے میں موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا۔ آج وہی جہاد بھی ماڈرن ڈکشنری میں دہشت گردی بن چکا ہے۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔؟ شیخ مجیب الیکشن جیتے مگر بھٹو صاحب نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا دیا۔  اس عمل کو کیا کہا جائے گا۔؟  ہم بنگالیوں کا رونا روتے ہیں یہاں اپنے گھر میں کیا ہوا  کون نہیں جانتا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں دھاندلی سے ہرایا اور انکی موت آج تک مشکوک ہے۔ مگر ہم کس منفقانہ شان سے ان کی محبت  کا ڈھنڈورا  پیٹتے ہیں۔
 ایمل کانسی کو پکڑنے کے لیے امریکی فوجی طیارہ پاکستانی قانون اور اداروں سے بالا تر ہو کر ڈیرہ غازی خان اترتا ہے اور اسے گرفتار کرکے لے جاتے ہیں مگر ریمنڈ ڈیوس کو اسی قانون کے تحت رہائی دے دی جاتی ہے۔ جاسوسی کا الزام ثابت ہونے کے باوجود ایوان ریڈلی طالبان کی قید سے باعزت و عصمت رہا کر دی جاتی ہے مگر کسی لبرل لکھاریوں کو آج تک اس عمل کی تعریف لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اور دوسری طرف بے قصور عافیہ کو خود ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے مگر اس کا دکھڑا بھی کبھی کسی   نام نہاد لبرل کے نوک قلم سے نہ لکھا جا سکا۔ یہ کیا منافقت  کی حد نہیں ہے۔؟
                 مولانا صوفی محمدنفاذ شریعت کا مطالبہ کریں تو جیل  بھیجا جاتا ہےاور لا ل مسجد والےیہی  مطالبہ کریں تو آپریشن اور عمران خان  تین  ماہ سے اسلام آباد بلاک کر کے بیٹھا ہےسرکاری عمارات اور املاک کا حشر نشر کیا جاتا ہے۔ اس دھرنے سے  اسلام آباد کے باسیوں کی روزمرہ سرگرمیاں متاثر ہویں وہیں حکومتی معاملات اور اہم  ممالک سے آنے والے حکومتی  اورکاروباری وفود کے دورے بھی موخر ہوئے۔ مگر  اس سے مذاکرات۔ کیا یہ  واضح تضادنہیں  ہے ؟       
                   جس جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے ساتھ دیا اوروفاق پاکستان کے لیے  اپنا سب کچھ داو پے لگا دیا۔ آج اس کے رہنماوں کو دھڑا دھڑ پھانسیاں دی جا رہی ہیں مگر ہماری وزارت خارجہ اسے بنگلہ دیش کا داخلی مسلہ قرار دے کے جان چھڑا لی حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہے جس کے تحت 1971 کے واقعیات کی بنیاد پر کسی شخص پر کوئی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے نہ سزا دی جا سکتی ہے۔ حکومت پاکستان اس معاہدے کو لے کر بنگلہ دیش حکومت سے بات کر سکتی ہے مگر  ایسا نہیں کیا گیا۔  اسے آپ بے وفائی کہیں گے یا منافقت۔      
                    آج ہم  پورے پاکستان کو سوئی گیس  تیل اور دیگر اہم معدنیات فراہم کرنے والے بلوچستان اور بلوچوں کی حالت دیکھ لیں ۔   تو ہمیں اپنا وہ چہرہ نظر آئے گا جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔  کیا  من حیث القوم ہمارا روّیہ منفاقانہ نہیں؟ میں نے جن  باتوں کا ذکر کیا ہے بیشک وہ حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس نظام کا حصہ ہونے کے ناتے  اس نظام کو ووٹ دینے کے باعث ہم بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اوروں کی طرف انگلی اٹھانے والوں کو اپنی جانب مڑی اپنی ہی چار انگلیاں نظر انداز نہیں کرنی چاہیے۔۔


جمعہ، 28 نومبر، 2014

سیدمنورحسن کابیان اور لبرل "مکتب فکر" کاردعمل۔۔۔

0 comments

 لاہور میں منعقدہ جماعت اسلامی کےعا لمی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سا بق امیر جماعت اسلا می سید منور حسن نے کہا ہے کہ ملک میں جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کا کلچر عام ہو جائے تو یہ ملک مشکلات سے نکل سکتا ہے۔ اس بیان پر دوسری سیاسی جماعتوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ خصوصاً ایم کیو ایم اور پی پی پی نے انکے بیان کو ملک میں خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ لڑائی کی کوشش قرار دیا۔
سید منور حسن کا بیان قابل وضاحت ہے جیسا کہ مولانا طاہر اشرفی نے بھی کہاہے  کہ اُ نہیں واضح کرنا چاہیے کہ یہ جہاد کس کے خلاف ھوگا موجودہ سسٹم کے خلاف یا اس سسٹم میں موجود لوگوں کے خلاف۔ اس کی وضاحت بہرحال آنی چاہیئے۔
من حیث القوم ہمارا رویہ ایسا ہو چکا ھے کہ ہم کسی کی بات سننا چاہتے ہیں نہ سمجھنا چاہتےہیں۔ با الفرض اگر کسی بات کی وضاحت درکار ہے تو سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر اپنے مفادات کی جنگ لڑنے والے سطحی سوچ کے حامل ھوتے ہیں۔ وہ صرف وہی  سوچتے ہیں جس میں انکا مفاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب سے ترجمان کا منصب اداروں کا لازمی جز ٹہرا تب سے لفظوں کا استعمال اور باتوں کے مطلب بدل گئے ہیں۔ لچھےدار وضاحتیں، پہلودار گفتگو، بے جوڑ حقائق اور سفید جھوٹ پر مبنی بیانات۔ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور پالیسیوں کے تسلسل کے لیے وہ راگ الاپا جاتا ہے کہ آقا مدنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ حدیث یاد آ جاتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ جب جھوٹ اتنا بولا جائے گا کہ سچ کا گمان ہونے لگے گا۔
یہاں مسلہ صرف سید منور حسن کے بیان کا نہیں اصل خرابی مختلف الخیال گروہوں کی اپنی اپنی موقف کے حوالے سے انتہاپسندی ھے۔  مذ ہبی اور لبرل انتہا پسند عموماً ایک دوسرے کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارا مزہب مسائل پیدا نہیں کرتا بلکہ ان کا حل پیش کرتا ہے۔لیکن اگر دونوں طبقات کی بات سنی جائے تو انکے پاس اپنی فکر و عمل کے حوالے سے وضاحتیں اور دلائل موجود ہیں جو ایک دوسرے کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں مگر دوسرے لوگوں کے الزامات ماننے کو تیار نہیں۔ پھر یہ فیصلہ کیسے ھوگا کہ کون کس کام کا زمہ دار ہے۔؟
مزہبی طبقہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو میڈیا پر بھر پورموقع بھی ملتا ہے جبکہ مذہبی رہنماوں کو اپنے موقف کی وضاحت کرنے کاپورا موقع نہیں دیا جاتا۔ اگر کسی پروگرام میں انہیں بلا لیا جائے تو صورتحال یہ ھوتی ھے کہ چار پانچ لبرلزمع اینکر ایک مولوی کو گھیرے ھوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بحث کے نتیجے تک پہنچنا مشکل ھوتا ہے چنانچہ عام آدمی ہمیشہ دیندار لوگوں سے متعلق میڈیائی پراپیگنڈے کا شکار رہتا ھے۔
ایک سوال میرے ذہن میں ہمیشہ کلبلاتا رہتا ہے کہ کیا انتہا پسندی صرف مذہبی طبقے کے ساتھ مخصوص ھے یا لبرلز بھی انتہا پسند ہوتے ہیں۔؟ اس سوال کے تناظر میں اگر لبرلز کی سوچ، حرکات و سکنات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ ان باتوں کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہم جماعت اسلامی کے جماعتی ڈھانچے اور نظام کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ہم آسانی سے اپنے سوال کا جواب تلاش کر سکیں۔
یہ بات بین الاقوامی اور ملکی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ جماعت اسلامی ملک میں فوج کے بعد سب سے منظم جماعت ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ قیادت اور کارکن اس جماعت کے پاس ہیں۔ امیر اور دیگر عہدے داروں کا انتخاب شفاف ترین الیکشن کے بعد ہوتا ہے جماعت موروثی سیاست کے خلاف ہے اور آج تک کسی امیر نے اپنے بچے کو امیر منتخب کرنے یا کرانے کی کوشش نہیں کی۔ جماعت اسلامی کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ تمام دیگر قابل زکر سیاسی جماعتوں کو کئی اہم سیاست دان جماعت کے فراہم کردہ ہیں یعنی وہ لوگ جو جماعت کو چھوڑ کردوسری جما عتوں میں گئے ہیں وہ اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر آج اہم زمہ دارعہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ وہ لوگ جماعت کو کیوں چھوڑ گئے۔  سب سے اہم اور قابل زکر بات یہ ہے کہ جماعت کے کسی رکن اسمبلی پر آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔ یہاں سے ہمارے مطلوبہ جواب کا آغاز ہوتا پے۔
کہ اتنی خوبیوں کے باوجود آج تک جما عت اسلامی کسی بھی الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے حکومت نہیں بنا سکی۔ آخر کیوں۔؟ ہمارے ہاں ایک اچھا آدمی یا جماعت صلاحیت واہلیت کے با وجود الیکشن کیوں نہیں جیت سکتی۔ یہ جماعت کی نہیں ہمارے معاشرےاور سسٹم کی ہار ہے۔ اگر ہم اس نظام سے تنگ ہیں اور اسکی درستگی چاہتے ہیں تو پھر اس خرابی کے زمہ داروں کے تعین اور ان سے گلو خلاصی کرانے میں کیا چیز ما نع ہے۔ منور حسن کے بیان پر تنقید کرنے والوں کو اشتعال انگیز بیانات دینے کی بجائے ٹھنڈے دل سے اس نظام کی درستگی سے متعلق سوچنا چاہیئے۔ اب جبکہ انکی وضاحت بھی سامنے آ گئی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ  کے کلچر سے انکی مرادایک ایسا چلن اور جدو جہد ہے جس کا مقصد اللہ کی رضا ہو۔ یعنی سیا ست ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی ہمارا مقصود محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیئے۔ ایمانداری اور اخلاص سے ہی معاشرے اور نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مگر اس عمل میں کیا چیز روکاوٹ ہے؟
کیا اقتدار کی غلام گردشوں کے رسیا اور کرپٹ سیاست دان ،انکی ہمنوا اشرافیہ اور قوم کا خون چوستی سرکاری نوکری یافتہ جونکیں قابل احتساب نہیں۔ اس ملک میں کرپشن، بے ایمانی، اقربہ پروری، رشوت ستانی کے کلچر کو فروغ دینے والا کون ہے ۔ کیا ان خرابیوں کا باعث مزہبی طبقہ ہے؟ اگر نہیں تو ہم ان سے نالاں کیوں رہتے ہیں اور ہر بار دین بیزار لوگوں کو کیوں چن لیتے ہیں۔ اس ملک کے حالات کے زمہ داروں کا احتساب کون کرے گا ؟  
یہ وہ سوال ہیں جو سسٹم کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور نظام تب درست ہوگا جب اس نظام کو چلانے والے لوگ بدلیں گے۔ افغان طالبان سے کئی باتوں پہ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن انکی حکومت کے 7 سال مثالی تھے یہ بات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ طالبانی دور میں امن، سکون، عزت، برکت تھی۔ نہ کوئی ظالم نہ کوئی مظلوم۔ جو حاکم تھے عوام کے خدمت گزار تھے۔
 لبرل نظام جمہوریت کوداغ دار کرنے والے یہی لبرل لوگ ہیں جو اس نظام کا سہارا لے کر اپنی خواہشات، اور ہوس کی تسکین میں مصروف ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نظام کی درستگی کے لیے درست لوگوں کا انتخاب ضروری ہے۔ اپنے زمہ امور کی بہتر انجام دہی تب ہی ممکن ہے جب نگرانی اور احتساب کا شفاف نظام قائم کیا جائے گا۔

سعودیہ اور افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاز کے خوشگوار اثرات اور نتائج  دنیا نے دیکھے ہیں۔ اسلام سے بڑھ کر شفاف مکمل، انسان دوست اور  انصاف پر مبنی نظام کوئی اور نہیں ھے۔ اور اب دنیا میں امیر ترین مسلم ریاست برونائی دارالسلام کے بادشاہ سلطان حسن البلقیہ نے ملک میں شرعی سزاوں کے نفاز کا اعلان کر کے دنیا کو بتا دیا ہے کہ عافیت اور بھلائی اسی نظام حیات میں ھے۔ پاکستان کا آئین اسلامی ہے صرف اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہو نا شروع ہو جائے تو نتائج حیران کن حد تک مختلف ہو سکتے ہیں۔

جمعرات، 20 نومبر، 2014

تھر اور ہمارے اجتماعی احساس کی موت

0 comments


  تھر سندھ  کاموت اُگاتا صحرا اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی مشترکہ بے حسی۔ خصوصاًحکومت سندھ  کا غیر سنجیدہ رویہ قابل مذمت ہی نہیں قابل گرفت بھی  ہے۔ اگران کے بیانات پڑھے جا ئیں تو شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کو  اس  معاملے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ایسے لگتا ہےکہ تھر  وفاق کی عملداری  میں نہیں  آتا۔
 حضور اکرم   صحابہ کرام  اور  اولیاء  اللہ  کے معمولات  زندگی کا  مطالعہ کیا  جائے تو یہ بات جا بہ جا پڑھنے  کو ملے گی کہ جب بھی کوئی حاجت مند آتو تو  خالی  واپس نہ جاتا تھا حتیٰ کہ کئی روزہ  فاقے کے باوجود اپنا دسترخوان پہ موجود روکھا سوکھا کھانا  بھی صدا دینے والےکو بھجوا دیا جاتا۔                                                                                                                                      مگر یہاں کئی برسوں سے بھوک جھیلتی  مائیں  اور انکے فاقہ زدہ رحموں میں پلتی نئی زندگیاں جو ماوں  کی  کوکھ سے خوراک کشید کرنے کے حق سے محروم کر  دی  گئی  ہیں۔ زچگی  جیسے پیچیدہ  اور جان لیوا عمل کے بعد خوراک اور ادویات  کی عدم دستیابی نے اس مبارک عمل کو  ایسے  جرم میں  بدل  دیا  ہے جس کی  سزا  فاقہ کشی اورکسمپرسی کی موت ٹہری۔
           دوسری طرف ارباب اختیار کے دمکتے چہروں، بھرے پیٹوں، پیسے سے لد پھد  بنک اکا ونٹس، آسودہ حال زندگی کی رنگا رنگی سے ظاہر ہے کہ وہ موت تو کیا خدا کو بھی  بھلا  بیٹھے  ہیں۔ موت کے شکنجے  میں جکڑے  اپنے  ووٹرز  کی  حا لت  زار  پر لفظی تعزیت کے سواء  کچھ نہ کر رہے۔ دیگر سیاسی جماعتیں پریس بریفنگ کے  ہتھیار  کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہی  ہیں۔
               حکومتی ادروں  کی سرگرمیاں محض  خانہ پری  ہے ناقص  غذا  اور  ادویات  اوراس  بڑھ  کر اہلکاروں کا  توہین آمیز رویہ ۔رہی انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں  تو انکی  پھرتیاں بس اس حد تک ہیں  کہ  فوٹو بن جائیں تاکہ ڈونرز مطمئین رہیں۔ اگر تھر کے  باسیوں کے لیے کسی کی کوششیں قابل ستا ئش ہیں تو وہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے  والی  فلاحی تنظیمیں ہیں جنھوں نے  بلا تفریق مذہب شاندارکام کیا  ہے ۔ وفاقی  اور صوبائی حکومتیں اگر ایمرجنسی  نافذ کر کے مناسب اقدامات کرتیں  تو  نتیجہ  یقییناً  مختلف ہوتا۔ مگر  ابھی تک یہ حال ہے کہ  ادویات تو  ایک طرف پانی  اور کھانا  ملنا بھی محا ل ہے۔

             صرف  تھر نہیں ملک میں موجود باقی ریگزاروں  مثلاً چولستان تھل اور  بلوچستان کا  صحرائی علاقہ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ ارباب اختیار سے درخواست ہے خدارااس صورتحال سے  نمٹنے کے لیے سنجیدہ 
  اقدامات کیے جائیں۔                         

بدھ، 19 نومبر، 2014

تعارف

0 comments

میرا نام سید عاصم علی شاہ ہے۔ میرا تعلق مظفر گڑھ سے ھے۔ مطالعہ کا شوق بچپن سے ہے۔ مذ ہب، تاریخ، ادب اور سیاست خاص دلچسپی کے مضامین ہیں۔ دوستوں کی تحریک پہ اپنا بلاگ بنایا ہے تاکہ وہ باتیں جو ہم سمجھتے ہیں کہ دوسروں تک پہنچائی جانی چاہیئے وہ آسانی سے پہنچائی جا سکتی ہیں۔۔۔