tag:blogger.com,1999:blog-6608634499990616172024-02-08T18:24:47.670+05:00نقش فریادینقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.comBlogger21125tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-18041552912885970192015-09-13T21:08:00.005+05:002015-09-13T21:08:48.465+05:00مزدور بچے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> ایک جملہ
جو اب معروف نعرہ بن چکا ہے کہ ''چائلڈ
لیبر جرم ہے'' سماجی تنظیموں کا یہ من بھاتا جملہ مجھے بہت عجیب لگتاہے۔ اس جملے
کے تخلیق کاروں کا پیغام اور مقصددونوں واضح ہے انکے اخلاص پر شک نہیں کیا جا سکتا مگر اس جملے ک خوش نمائی تلے بےبسی اور لاچاری
کی کئی کہانیاں پنہاں ہیں جن کو نظر انداز کرنا ایک خوفناک غلطی ہوگی
جس</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کا
انجام معاشرے کی یقینی </span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">تباہی ہے۔کوئی با شعور انسان چائلڈ لیبر کا حامی نہیں ہو سکتا ۔ یہا ں
ایک بات قابل غور ہے کہ چائلڈ لیبر اور جبری مشقت میں فرق ہے۔ سارے مزدور بچے جبری مشقت کے ضمرے میں نہیں آتے۔مگر
ایک ساد ہ سے سوال کا جواب درکار ہے کہ
ہے کہ یہ مشقت جبری ہو یا دلی آمادگی کے
ساتھ بچے آخرمشقت پر آمادہ کیوں ہو جاتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر پیٹ بھرا ہو تو
بچوں کو سونے اور کھیلنے کے علاوہ کچھ نہیں
سوجھ سکتا۔ بچوں سے متعلق تحقیق بتاتی ہے کہ بچے فطری طور پر کھیل کو نیند پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔ایسے میں
محنت مشقت کا خیال کیوں کر</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span> آ سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب جانے بغیر کوئی نتیجہ خیز اور مؤثر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا
۔ اگر چائلڈ لیبر واقعی جرم ہے تو کس
کا اور اگر قابل تعزیر ہے تو سزا کس کا مقدر ہے ؟ کیا یہ اس بچے کا جرم ہے جواپنے معذور یا
مرحوم باپ کی ذمہ
داری اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے؟ جو دکھیاری ماں کا سہارا بننا چاہتا ہے یا پھر اس
بچے کاجواپنے چھوٹے چھوٹے بہن</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">بھائیوں کی خاطر اپنا بچپن قربان کر چکا ہے یا یہ اس شخص کا جرم ہے جس نے اسے کام پر رکھا ہے یا پھر اس نظام کا جس
نے اسے زمانے کی ٹھوکریں کھانے کے لئے بے
سہارا چھوڑ دیا۔ جو اس صورتحال کا ذمہ دار ہے وہی سزاوار ہے۔ذمہ داروں کا تعین کر
لیا جائے تو اس مسلے کا حل آسان ہو جائے
گا۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> تاریخ اسلام رہتی دنیا تک بنی نوع انسان کی
رہنمائی کرتی رہے گی۔ رات کا آخری پہر ہےخلیفہ وقت اپنے کاندھے پرراشن اور دیگر اشیاء ضروریہ کی گھٹری اٹھانے لگتا ہے تو غلام کہتا ہے کہ میں حاضر ہوں پھر آپ کیوں سامان اٹھا رہے ہیں مجھے دے دیجیئے،
جواب ملا روز قیامت مجھے اپنا بوجھ خود ہی
اٹھانا ہے اس لئے یہ بھی مجھے اٹھانے دو۔ افسوس
سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومت کا رعایا سے متعلق جو
کردار ہونا چاہئے وہ نظر نہیں آ رہا ۔ ملک میں اکثر مسائل صرف حکومت وقت کی
نا اہلی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے پیدا
ہوئے ہیں۔ریاست کو ا س معاملے پر سنجیدگی دکھانےکی ضرورت ہے۔ ایک عورت امام
ابو حنیفہ کے پاس اپنے بچے کو پڑھنے کے لئے چھوڑ جاتی ہے کچھ دنوں بعد بچے کی واپسی کی
درخواست کرتی ہے کہ میرا کمانے والا کوئی نہیں یہ کوئی کام کرے گا تو گزر بسر ہوتی رہے گی۔آپؒ
نے انکا وظیفہ مقرر کر دیا تاکہ بچہ کی تعلیم کا حرج نہ ہووہی بچہ بڑا ہو کے امام ابو
یوسفؒ کے نام سے معروف ہوا۔ یہ تو حکومت وقت کی کام ہوتا ہے جسے پورا کرنے میں اب تک کی تمامحکومتیں پوری طرح ناکام رہی ہیں۔اب تک نہ جانے کتنے ابو یوسف، امام غزالی
،ابن سینا اور الرازی ہماری حکومتوں کی عدم
توجہ کے باعث کتنے گلی کوچوں کی دھول
بن چکےہیں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ معصوم بچہ
کھلونے چھوڑ کر اوزار کیسےاٹھا لیتا ہے۔ اپنے
گھر والوں کی پکار پر دھیان نہ دینے والا
اپنی بے نیازنہ فطرت سے انحراف
کرکے اپنے "استاد" کی ایک جنبش
ابرو پر کیسے لپکتاہے۔؟روزانہ صبح اپنےہم عمربچوں کی طرح
اسکول جانے کے بجائے دن بھرکی جان توڑ مشقت کے لئے خود کو کیسے تیار کرتا ہے؟ ۔ کیا ایک بچہ اتنا
سمجھدار ہوتا ہے کھیلنے کی عمرمیں اپنی
شرارتوں کو گھر کے آنگن میں دفنا کر گھر بھر کی پوری ذمہ داری اٹھا لے۔ اپنی مجبوریوں کے بدلے مسکراہٹوں سے دست
بردارہونا کوئی کھیل ہے ؟ ننھے دل میں
مچلتی خواہشوں کو تھپک تھپک کر سلانا کیا واقع آسان ہے۔؟ مانا بچوں سے کام لینا جرم قرار دیا جا چکا ہے۔
یہ انکے کھیلنے کودنے اور پڑھنے کے دن ہوتے
ہیں۔ لیکن جو بچے بے سہارا ہیں جن کے کفیل دنیا سے جا چکے، قید ی ہیں ،لاپتہ
ہیں یا والدین معذور ہیں اوروہ اپنے والدین یا بہن بھائیوں کا
سہارا بنے ہوئے ہیں ۔ ان کا کون وارث بنے گا کہ وہ پڑھ سکیں ۔انکے تعلیمی اخراجات
کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان کو روزآنہ جیب
خرچ کون دے گا؟ کون اسکول چھوڑنے جائے
گا۔؟</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جن
کو روٹی کے لالے پڑے ہیں وہ کیسےپڑھ سکتے
ہیں؟یہ ادھورہ قانون انکے ساتھ سنگین مذاق ہے یہ توانکے زخم کھرچنے کے مترادف ہے۔۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہمارا مذہب اپنے ہمسا ئیوں چاہے وہ غیر مسلم
ہی کیوں نہ ہوں ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی بھی تعلیم دیتا ہے اور رشتے داروں کے حقوق تو اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔ اگر ہمسائیوں،
رشتے داروں یا جاننے والوں میں کوئی بے
سہارا بچہ یا خاندان ہے تو اسکی کفالت کرنا صاحب حیثیت لوگوں خصوصاً
رشتے داروں اور ہمسائیوں کا فرض ہے
تاریخ اسلام ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔اس طرح
یہ ریاست کی بھی
ذمہ داری ہے ۔کیا ہم لوگ اور حکومت اس اپنی ذمہ داری کو پورا کر رہے ہیں۔یہ ایک ایسا سوال ہے کہ اگر
اسکا جواب ڈھونڈا جائے تو ہمارے بہت سےانفرادی و اجتماعی مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
اگر حکومت چاہتی ہے کہ یہ مزدور اور بے
سہارا بچے بھی پڑھیں تو ایسے بچوں
اورانکے خاندانوں کی کفالت کی پوری ذمہ داری
لینا پڑے گی۔ تعلیم کے نام پہ ویسے
بھی کتنا خرچ ہو جاتا ہے،کتنا پیسہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔سرکاری فنڈ کے خوردبرد کی خبریں روز پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس
سلسلے میں زکوٰۃ ، تعلیم اور سماجی بہبود کے محکماجات کو آپس میں
کوارڈینیشن کے بعدایک مشترکہ ٹیم بنا کر مستحق خاندانوں اور بچوں کی تعلیمی اور
معاشی ضروریات کے حوالے سے ملک گیر سروے کرایا جائے اور حکومت کو سفارشات پیش کی جائیں۔ جس پر جلد از
جلد غور کر کے کوئی موثر لائحہ عمل بنایا جائے۔ معروف فلاحی تنظیم اخوت کی طرز پر ایک تنطیم کھڑی کی جا سکتی ہے جس میں معاشرے کے
ایماندار مگر بے روزگار افراد کو بھرتی کیا جائے اور اپنے ہی علاقوں میں ان سے
مستحق افراد اور خاندانوں کے کوائف اکھٹے
کرائے جائیں اور انکی امداد کے ذرائع اور
نظام کی شفافیت پر غور و فکر کر کے کوئی لائحہ عمل تیار کی جا سکتا۔ جس کے یقینناً
دور رس نتائج نکلیں گےورنہ صرف چائلڈ لیبر کے نام پر ایسے بچوں کے لئے روزگار پر پابندی لگانے سے
حالات مزید خراب ہونگے اور معاشرے میں جرائم خصوصاً جنسی جرائم کی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ جائے گی۔ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہمارے معاشرے میں ایک اور مسلہ یہ
ہے کہ ان بچوں کے لئےروزی کمانا آسان تھوڑی ہے۔ وہاں بھی بچوں کو بڑے مسلے درپیش ہوتے ہیں۔ ہمارے گھر سے
کوئی بچہ قریبی دوکان سے کچھ لینے جائے تو مائیں دروازے سے لگی انتظار میں کھڑی
رہتی ہیں۔ جبکہ وہ بھی تو مائیں ہیں جو اپنے معصوم بچوں کو صبح
صبح کام کے لئے بھیجتی ہیں اورخود سارا دن سولی پہ لٹکی رہتی ہیں کہ پتہ نہیں کیسا
کام ہے ، کیسے لوگ ہیں، مارتے تو نہیں ہوں گے۔ کھانا بھی ٹائم سے کھاتا ہوگا کہ
نہیں۔آئے روز ٹی وی چینلز پر بچوں کا ذرا ذرا سے نقصان پر مارنے پیٹنے، ہاتھ یا
بازو توڑنے، جلانے یا تشدد سے ہلاک کرنے کی
خبریں آتی رہتی ہیں۔ اکثر جنسی تشددکی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ ہم سے اپنے
بچوں کو کسی کا ڈانٹنا برداشت نہیں ہوتا۔ مگر یہاں تو ظلم کی نت نئی داستانیں ملتی
ہیں۔ جب بھی کوئی ایسی خبر سنتا ہوں تو کئی کئی دن بات ذہن سے نہیں اترتی کہیں چوری کے الزام میں بچے کوجان سے مار دیا جاتا
ہے۔کیا چوری ہونے والی چیز اسکی جان سے
بھی زیاداہ قیمتی چیز ہو گی ؟ کہیں گندم
کے کھیت میں آگ لگانے کے شبے میں زمیندار نے
بچے کو جلا دیتا ہے ۔ ان حالات میں کون معصوم کمانے جا سکتا ہے اور
کون سے والدین بچوں کا ایسی جگہوں پر
بھیجنے کے لئے تیار ہو نگے ہیں مگر پھر بھی کام کرنے والے بچوں کی تعداد بڑھتی جا
رہی ہے آخر کیوں؟ وہی پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر۔ ایک مسلہ
کم اجرت بھی ہے جبکہ سارا دن بڑوں کی طرح کام کرنے کے با وجود تھوڑی اجرت ملتی ہے۔کسی
دانشور کا قول ہے کہ بھوک دنیا کا سب سے بھیانک سچ، سب سے تلخ حقیقت، سب سے بڑی
کمزوری ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">پاکستان کی آبادی ایک اندازے کے مطابق انیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔عالمی ادارہ محنت آئی –ایل-او کے مطابق پاکستان
میں تقریباً نوے لاکھ سے زائد بچے مزوری
کرتے ہیں۔تقریباً چالیس لاکھ بچے باقاعدہ کام کاج والی جگہوں پرکام کرنےجاتے ہیں۔تقریباً چالیس سے پچاس لاکھ
بچےگھروں اورکھیتوں وغیرہ میں کام کرتے ہیں ۔ ان بچوں میں لڑکے 73 فیصد اور لڑکیوں کا تناسب ستائیس فیصد ہے۔۔ان میں سےاکیاسی فیصد بچے
حالات کے ہاتھوں کام کرنے پر مجبور ہوئے۔
یونیسکو کے مطابق پاکستان میں 70لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے اور اسکول نہ
جانے والے بچوں کی اکثریت شہری علاقوں سے
تعلق رکھتی ہے۔حکومت پنجاب نے '' پڑھا لکھا پنجاب'' کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز
کیا ہےجس کے تحت اسکول پڑھنے کی عمر کے
تمام بچوں کو اسکول میں داخل کیا جائے گا اور انہیں کام پہ بھیجنے والے والدین اور
کام پر رکھنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔میں ایسے بہت سے گھرانوں کو میں
جانتا ہوں جو ان بچوں کی آمدنی سے گزر بسر کر رہے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ اگر حکومت
ہماری آمدنی کا معقول انتظام کر دے یا عورتوں کو گھریلوں سطح پر کام کے مواقع
پیداکرے تو ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کام پر بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔ انکا بھی
دل کرتا کہ انکے بچے بھی اسکول جائیں پڑھ لکھ کر اچھا انسان بنیں اور اچھی زندگی گزاریں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">میرے ایک ٹیچر دوست بتا رہے تھے
انہیں محکمہ تعلیم کی جانب سے گھر گھر جا
کر اسکول نہ جانے والے بچوں کو داخل کرنے
اور انہیں اسکول لانے کے احکامات ملے تو وہ اسی سلسلے میں اپنے متعلقہ علاقے میں اہل
علاقہ سے ملنے گئے تو ایک آدمی نے دو ٹوک
بات کی کہ ماسٹر جی ہمارے ساتھ پیٹ
بھی لگا ہوا ہے۔میں معذور ہوں میرے دو بچےایک
ہوٹل پہ کام کرتے ہیں ہیں دونوں چھ چھ ہزار لاتے ہیں دو ٹائم کھانا بھی ملتا ہے شام
کو دودھ بھی لاتے ہیں۔ آپ بارہ ہزار اورایک
کلو دودھ دے دیا کریں دونوں بچے کل سے اسکول آ جایا کریں گے۔میرے دوست نے کہا کہ اب گورنمنٹ نے سختی کر دی ہے عمل نہ
کرنے پر جیل بھی ہو سکتی ہے تو جواب ملاکہ گورنمنٹ کیا ہمیں کھانے کو دیتی ہے؟ اور جو لوگ
پڑھ لکھ کر نوکری کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں </span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">پہلے انکا کوئی انتظام کیجئے۔ اس آدمی
کے یہ جملے قابل غور و فکر ہیں۔یہاں یہ بات سوچنے لائق ہے کہ کیا لوگوں کے لئے روزگار کی فراہمی میں حکومت
کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے۔برطانیہ میں حکومت بے سہارا بچوں، معذورافراد اور بوڑھے لوگوں کوبہت سی سہولیات فراہم
کرتی ہے۔ مستحق طالبعلموں کو ہفتہ وار وظیفہ دیتی ہے جس
سے انکا اچھا خاصا گذارا ہو جاتا ہے۔ اسکے علاوہ بیروزگار لوگوں کو اس وقت تک وظیفہ ملتا ہے جب تک ان کو معقول نوکری نہیں مل جاتی۔کم و بیش
یہی قانون یورپ کے تمام ممالک میں رائج ہے۔</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">مگر پاکستان کی صورتحال مختلف ہے یہاں مراعات یافتہ دن بدن
ترقی امیر ہوتا جا رہا ہے مگر غریب
آدمی ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت کی دلدل
میں دھنستا جا رہا ہے۔ یہ
"مزدور بچے" اسی تلخ حقیقت کے
غماز ہیں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">http://naqshefaryadi.blogspot.com</span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-10383452891534123172015-05-14T16:25:00.002+05:002015-05-14T16:25:28.602+05:00محسن نقوی۔۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">لوح قرطاس نہ پھر دست قلم کار جُدا<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہر کہانی کے مگر ہوتے ہیں کردار جُدا ۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">دل بدل جائیں تو رستے بھی بدل جاتے ہیں<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">در جدا ہوں تو اٹھا لیتے ہیں دیوار جُدا ۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> سازیشیں لاکھ کریں دشمن لیکن<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کر پائے گا کبھی مجھ سے میرا یار جُدا ۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اشک آنکھوں میں لئے ڈھونڈ رہے ہیں ہم کو<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">میرے غم خوار الگ، تیرے طلب گار جُدا ۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">وادی ء عشق میں ہے کیا خوب تماشا محسن۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> لذت ہجر جدا، وسل کے آزار جُدا ۔۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<br />
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-48900709169354973302015-05-12T15:05:00.000+05:002015-05-12T15:05:39.650+05:00''کولمبس'' انسانی تاریخ کاایک سیاہ باب<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<b><span style="color: blue; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-no-proof: yes;"><!--[if gte vml 1]><v:shapetype id="_x0000_t75"
coordsize="21600,21600" o:spt="75" o:preferrelative="t" path="m@4@5l@4@11@9@11@9@5xe"
filled="f" stroked="f">
<v:stroke joinstyle="miter"/>
<v:formulas>
<v:f eqn="if lineDrawn pixelLineWidth 0"/>
<v:f eqn="sum @0 1 0"/>
<v:f eqn="sum 0 0 @1"/>
<v:f eqn="prod @2 1 2"/>
<v:f eqn="prod @3 21600 pixelWidth"/>
<v:f eqn="prod @3 21600 pixelHeight"/>
<v:f eqn="sum @0 0 1"/>
<v:f eqn="prod @6 1 2"/>
<v:f eqn="prod @7 21600 pixelWidth"/>
<v:f eqn="sum @8 21600 0"/>
<v:f eqn="prod @7 21600 pixelHeight"/>
<v:f eqn="sum @10 21600 0"/>
</v:formulas>
<v:path o:extrusionok="f" gradientshapeok="t" o:connecttype="rect"/>
<o:lock v:ext="edit" aspectratio="t"/>
</v:shapetype><v:shape id="Picture_x0020_1" o:spid="_x0000_i1025" type="#_x0000_t75"
style='width:286.5pt;height:327pt;visibility:visible;mso-wrap-style:square'>
<v:imagedata src="file:///C:\DOCUME~1\ADMINI~1\LOCALS~1\Temp\msohtmlclip1\01\clip_image001.jpg"
o:title="Aus. capture local black men"/>
</v:shape><![endif]--><!--[if !vml]--><!--[endif]--></span></b><b><span dir="RTL" lang="ER" style="color: blue; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div align="center" class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<b><span dir="RTL" lang="ER" style="color: blue; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p> </o:p></span></b><b><span dir="RTL" lang="ER" style="color: blue; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">تحریر: سید عاصم علی شاہ</span></b></div>
<div align="center" class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<b><span dir="RTL" lang="ER" style="color: blue; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">عام طور پر لوگ کرسٹوفر کولمبس کو ایک سیاح کے طور پر جانتے
ہیں۔ ہم نے بھی ساتویں یا آٹھویں کی معاشرتی علوم میں کولمبس کے بارے میں یہی پڑھا</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">تھا۔ انکا </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">مشہور کارنامہ امریکہ کی دریافت
ہے اور یہی انکی اصل وجہ شہرت ہے ۔ بعد میں بھی ہمیشہ اخبارات اور رسائل میں
کولمبس کی تعریف ہی پڑھی۔</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">کچھ عرصہ
قبل</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">موصوف کے بارے میں کچھ ایسے</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">چشم کشا انکشافات پڑھنے کو ملے </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">جس سے سخت حیرانی ہوئی، پھر اسکی تحقیق میں جت
گئے۔ کافی جدو جہد کے بعدایسا معلوماتی</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">مواد میسر آیا جس سے حقائق واضح ہوئے۔ کولمبس </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">تیس اکتوبر 1451 میں ریپبلک آف جنوا( اٹلی) میں
پیدا ہوا۔ سلطنت ہسپانیہ کا تنخواہ دار ملازم رہا۔ وہ ایک تجربہ کار سپاہی اور مہم
جو جہاز ران تھا۔</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">مگر ایک سیاح کے طور
پر</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">زیادہ معروف ہوا۔ وہ اختیارات،دولت اور
دربار </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">تک رسائی کا ہمیشہ متمنی رہا۔اس مقصد کے لئے وہ نت نئے منصوبے سوچتا رہتا
تھا۔ یہی چیز </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">اسے نئے ممالک کی کھوج </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">اور دریافت </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">پر
اکساتی تھی۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> 12اکتوبر
1492 ء میں کولمبس نئے سمندری راستے سے مشہور منگول بادشاہ قبلائی
خان کی سلطنت کی تلاش میں نکلا۔ اسکا
اندازہ تھا کہ میں اس سمندری راستے پر مشرق کی طرف سفر کرتے ہوئے منگول سلطنت تک پہنچ
جاؤں گا ۔مگر وہ قبلائی خان کے ''چین یاسی
پانگو'' (جاپان) کے بجائے شمالی امریکہ کے جزائر
بہا ماس یعنی جزائر غرب الہند کی طرف آ نکلا۔ اور وہ ساری زندگی کیوبا،
جمیکا، بہاماس کو قبلائی خان کی سلطنت کے علاقے سمجھتا رہا۔ کولمبس ان جزائر میں
سب سے پہلے ''گوانا ہانی'' موجودہ ڈومنیکن ری پبلک اور ہیٹی کے علاقے میں اترا۔اسی
نے ''گوانا ہانی'' اور اس کے قرب جوار کے
جزائر کو ہسپانوی نام '' سان سالو یڈور'' دیا۔ جیسے جیسے اس کا جہاز زمین کے قریب
آ رہا تھا اسکی حیرت بڑھتی جا رہی تھی ، ایک نئی، خوبصورت اور سر سبز دنیا اسکے
سامنے تھی۔یہاں اتر کر کولمبس کو جو پہلی منفرد چیز نظر آئی وہ وہاں کے مقامی باشندے
آرواک قبائل کے ریڈ انڈین یعنی سرخ
ہندی باشندے تھے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> جن کے بارے میں کولمبس
خود اپنے روزنامچے میں لکھتا ہے:۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">''وہ ہمارے لئے رنگ برنگے پرندے، روئی کے گٹھے، کمانیں اور
دوسری اشیا لے کر آئے اور بدلے میں ہم سے
بیلوں کی گردن میں ڈالنے کی گھنٹیاں اور شیشے کی لڑیاں لے گئے۔ یہ لوگ اشیا کے
بدلے اشیا کے تبادلے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کے جسم مضبوط اور صحت مند ہیں۔
یہ لوگ سادہ اور جفا کش اور بے ضرر نظر
آتے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ تو ہتھیار روں کے استعمال کا علم ہے نہ ہی کسی ہتھیار سے
مسلح ہوتے ہیں۔ جب میں نے انہیں اپنی تلوار دکھائی تو بیشتر نے اپنی انگلیوں اور ہاتھوں کو تیز دھار تلوار سے
زخمی کر لیا۔ یہاں ابھی تک لوہے کا استعمال شروع نہیں ہوا ہے۔ ان کے تیر اور کمان
لکڑی، گنے اور بانس سے بنے ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ بہترین خدمت گار اور
اچھے غلام ثابت ہونگے۔ ہم صرف پچاس لوگوں کی مدد سے تمام آبادی پر غلبہ پا سکتے
ہیں۔''<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">یہ سطریں اس روزنامچے کا حصہ ہیں جو کولمبس اپنے اس سفر کےاہم
واقعات کی یادداشت اور ملکہ کو رپورٹ دینے
کی خاطر لکھتا تھا۔ان چند الفاظ نے اس داستان خونچکاں کی بنیاد رکھی جو پانچ صدیوں
پر محیط ہے۔ اس تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ
ریڈ انڈین پر امن لوگ ، بے ضرر اور کشادہ دل لوگ تھے۔ بظاہر یہ انکی
تعریف ہی تھی مگر ا ن الفاظ نے انکی قسمت پر بد نصیبی کی مہر لگا دی ۔اس تحریر نے ریڈ انڈین کے ساتھ جو کچھ کیا با لکل ویسا ہی
نوم چومسکی کے تعریفی کالم کے بعد عافیہ
صدیقی کے ساتھ ہوا کیونکہ ماضی اور حال کے غارت گر ان دونوں تحریروں کا مطلب خوب سمجھتے
تھے۔ <o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کچھ ماہ وہاں رہنے
کے بعد 15 مارچ 1493ء کو کولمبس واپس
اسپین پہنچا تو اس کا رائل ایڈمرل کے طور پر استقبال کیا گیا۔ وہ سونے اور چاندی کی ڈلیاں، مکئی، طرح طرح کے پرندے،تمباکو اور دس بد نصیب ریڈ
انڈین غلام ساتھ لایا ۔ کل تک جو شخص ملکہ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہتا تھا آج
ملکہ اور بادشاہ کے ساتھ شاہی محل میں بیٹھا انواع و اقسام کے کھانے کھا رہا تھا اور
اسے مصا حب خاص کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس موقع پر کولمبس نے ایک تحریری رپورٹ ملکہ
کی خدمت میں پیش کی جسے سرکاری دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ </span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کولمبس اپنی رپورٹ میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ:۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">'' ریڈ انڈین اپنے دفاع کے قابل نہیں، انکے رسم و رواج میں
ذاتی ملکیت کا تصور نا پید ہے۔ ان سے کچھ بھی طلب کیا جائے وہ دینے سے انکار نہیں
کر سکتے زمین اور وسائل کسی کی ملکیت نہیں بلکہ مشترکہ استعمال اور ملکیت کا قانون رائج ہے جبکہ
استعمال کرنے والے بدلتے رہتے ہیں۔ موت اور نقل مکانی کی صورت میں نئے استعمال
کرنے والے آ جاتے ہیں لیکن متعلقہ لواحقین کسی اثاثے پر خاندانی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرتے۔ اگر
بادشاہ اور ملکہ میری مدد کریں تو اتنا
سونا لا دوں کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو اور اتنے غلام لا دوں کہ جتنے کا حکم دیا جائے گا''۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اپنی چکنی چوپڑی باتوں ،سفر کے انوکھے واقعات ، اور ریڈ انڈین اور انکے علاقےسے متعلق معلومات سے لبریز گفتگو
نے اپنا اثر دکھایا اور اس نے ملکہ کو
راضی کر لیا کہ وہ دوبارہ اس سفر پر جانا چاہتا ہے لہٰذا اگر ملکہ اور بادشاہ اس
مہم کے اخراجات کا ذمہ لے لیں تو کئی گنا دولت لا کر انکے قدموں میں ڈھیر کر دےگا۔
یوں 25دسمبر 1493 کو کولمبس شمالی امریکہ کی طرف اپنے دوسرے سفر پر
روانہ ہوا تو یہ اس کی زندگی کا نقطہ عروج تھا۔ بحیثیت رائل ایڈمرل اس کی کمان میں سترہ جہاز دئے گئے جن میں بارہ سو افراد بھرے ہوئے تھے جن میں ایک سےبڑھ کر
ایک جہاں دیدہ جنگجو، ماہر تلوار باز، تجربہ کار تیر انداز گھوڑے، مال
مویشی، بکریاں، کتے، سور، مرغیاں، اناج، بیج، عمارتی سامان، اور اسلحہ بھرا ہوا
تھا۔ اگر اس قافلے اور اسکے ساتھ جانے والے سامان کا جائزہ لیا جائے تو آسانی سے
سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوگ قبضے ، لوٹ مار
اور مستقل رہائش کے مقصدسے جا رہے تھے ۔ ان جانے والوں لوگوں میں اکثریت
خطر ناک جرائم پیشہ افراد کی تھی ۔ اس طرح
اس مہم سے ملکہ ازابیلا نے دوہرا فائدا اٹھایا ایک تو جرائم پیشہ لوگوں
سے جان چھوٹ گئی دوسرا ریڈ انڈینز کے
علاقوں پر قبضہ بھی ہو گیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جب کولمبس اس جگہ
پہنچا تو اسے مقامی لاگ نظر نہ آئے۔ ریڈ انڈینز کے رہائشی جھونپڑے جلے ہوئے تھے
اورانکی کٹی پھٹی لاشیں جا بہ جا بکھری
ہوئی تھی۔ ان لوگوں کی اکثریت اس کے آدمیوں کے ہاتھوں ماری جا چکی تھی جن کو کولمبس
آبادکاری کے غرض سے وہاں چھوڑ گیا تھا۔ پھر
یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ صدیوں تک چلتا
رہا۔جہاں جہاں یہ پہنچے ظلم و بربریت کی نئی نئی داستانیں رقم کرتے گئے۔ 1494 ء سے
1508 ء تک یعنی پندرہ سال کے عرصے میں صرف
جزائر غرب الہند میں چالیس لاکھ سے زیادہ ریڈ انڈینز قتل کئے گئے اور باقی مقبوضہ علاقوں کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔۔ <o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">مشہور مورخ ہاورڈزین لکھتا ہے:۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">'' بہاماس کے ساحل پر جب کولمبس کا جہاز لنگر انداز ہوا تو
اس ساحلی علاقے میں تیانو اور آرواک قبائل آباد سے۔ جو ریڈ انڈینز کے بڑے قبیلے
شمار ہوتے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان قبائل کے افراد نا پید ہو گئے۔وہ پا بہ
زنجیر ہوئے اور غلام بنا کر اسپین کی طرف روانہ کر دئے گئے یا قتل ہو گئے۔ ہسپانوی آبادکاروں کے
ہاتھوں بہاماس اور ہیٹی کے جزائر کے ایک لاکھ سے زیادہ آرواک انڈینز تہہ تیغ کئے
گئے۔ کولمبس کے لشکری ایک کے بعد ایک جزیرے میں تلواریں لہراتے ہوئے جاتے ، عورتوں
کی آبروریزی کرتے ،بچوں اور بوڑھوں کو کو قتل کرتے اور جوانوں کو زنجیر یریں پہنا
کر ساتھ لے جاتے، جو مزاہمت کرتا قتل ہو جاتا۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> چونکہ ہسپانوی حملہ
آور لٹیروں کی قتل و غارت اور ریڈ انڈینز کی مدافعت کا آپس میں کوئی جوڑ ، کوئی
مقابلہ تھا ہی نہیں اس لئے نہتے ریڈ انڈین قتل ہوتے گئے ۔سالوں تک انہیں یہ ہی
سمجھ نہ آیا کہ اس ناگہانی مصیبت سے کیسے
بچا جائے۔صدیوں تک امن و امان ،سکون اور مل جل کرساتھ رہنے والے لوگوں کے لئے یہ
صورتحال غیر متوقع تھی۔ جن لوگوں کے
جانوروں کا شکار کرنے کے لئے ڈھنگ کے ہتھیار نہ ہوں وہ بھلا جلاد صفت انسانوں سے کیسے مقابلہ کر
سکتے ہیں۔انہیں نہ تلوار، تیر اور بھالے
کے بنانے اور استعمال کا پتہ تھا نہ گھڑ سواری سے آ گاہی تھی حتیٰ کہ حملہ آوروں
کی زبان سے بھی ناآشناتھے۔ کریں تو کیا کریں کہیں تو کس سے
کہیں؟<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کولمبس کے ساتھ جانے والا عیسائی مبلغ لاکس کیسس لکھتا ہے
کہ :۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">''ہسپانوی آبادکاروں نے اجتما عی پھانسیوں کا طریقہ کار
جاری کیا جبکہ بچوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو اپنے کتوں کے سامنے بطور خوراک
ڈال دیا جاتا تھا۔ نوجوان عورتوں کی اکثریت اس وقت تک جنسی تشدد کا شکار رہتی جب
تک مر نہ جاتی۔گھروں کو آگ لگا دی جاتی اور ریوڑ کی صورت میں بھاگتے غیر مسلح اور
نا قابل دفاع لوگوں کا تیز رفتار گھوڑون سے تعاقب کیا جاتا اور انہیں تیر اندازی
کی مشق کے لئے استعمال کیا جاتا۔ یوں چند ہی گھنٹوں میں شہر کا شہر زندگی سے عاری
ہو جاتا اور ہسپانوی انکی وسیع زمینوں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔<o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کیا خوب ہے کہ جمہوریت آزادی، برابری، انصاف، انسانی حقوق
کےعلم بردار اسی امریکہ میں جسے کولمبس نے دریافت کیا تھا 1965تک ریڈ انڈینز اور کالے امریکیوں کو ان حقوق سے محروم رکھا گیا۔ تقریباً یہی حال آسٹریلیا میں مقامی لوگوں کا
کیا گیا۔یہی طریقہ کار افریقہ میں اپنایا گیا۔اگر حملہ آور مختلف قومیں تھی مگر ظلم،
وحشت اور بربریت کی داستانیں ایک ہی جیسی
ہیں۔ ملکہ ازابیلا ، کولمبس اور ہسپانوی درندوں کی خون آشام روحیں آج بھی استعمار کی صورت میں ساری دنیا میں دندناتی پھر
رہی ہیں۔ آج امریکہ کے طول عرض میں کولمبس
کی یاد میں ایک سو پانچ مجسمے، ایک سو
چالیس سے زائد کتبے اور پانچ سو سے زائد ستائشی سلیں آویزاں ہیں۔ صرف یہی
نہیں اسکی یادگاروں کا یہ سلسلہ اسپین
، اٹلی، جزائر غرب الہند، لاطینی امریکہ،
یورپ اور شمالی امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ کئی جگہوں پر ملکہ ازابیلا کے مجسمے بھی
نصب ہیں جس کے ہاتھ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں۔ جس کی بد عہدی شکلیں بدل
بدل کر مظلوموں کا پیچھا کرتی ہوئی غرناطہ سے دشت لیلیٰ تک آ گئی ہے۔ جس سے صاف
ظاہر ہے کہ آج کااستعمار اپنے محسنوں کو بھولا ہے نہ انکے کارناموں کو۔ چنانچہ اس
وقت سے لے کر آج تک یہ مشق ستم جاری ہے۔<o:p></o:p></span></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-27606318761575217862015-05-07T13:09:00.000+05:002015-05-07T13:09:00.319+05:00کچھ یادگار لمحات کا ذکر۔۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
کچھ یادگار لمحات کا ذکر۔۔</div>
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہوم ڈیپارٹمنٹ معہ
عملہ سالانہ چھٹیوں پر سسرال نگر میں ہے</span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">باالفاظ دیگر میرے میکے میں۔۔</span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt; line-height: 115%;">چند دنوں کے یہ کئی ہزار پرسکون لمحات کسی یادگار سے کم نہیں (اگر نصیب
دشمناں یہ پوسٹ یا اسکے مندرجات مذکورہ بالا محکمہ جاتی سربراہ تک نہ پہنچے تو) ۔۔</span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کسل مندی اور
تھکاوٹ کے سالوں پرانے اثرات دھل گئے۔ کئی لاحق بیماریاں تو جڑ سے ہی ختم ہو گئیں
۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> مہینوں سے زیر
التوا نیندوں کی قضا ادا کی، بھولی بسری کروٹوں کے نئے نئے زاوئیے دریافت کیے۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">زیر مطالعہ کتابوں
کی بوسیدہ نشانیاں جو ہمارے شوق مطالعہ کی گواہ ہیں تھیں انہیں قید سے نجات دی۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اپنی ڈائری کی گرد جھاڑی، اور حیرانی سے اپنے ''تخلیقات''
پڑھتے رہے کہ ''آتش کبھی جوان تھا''۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">زیر مطالعہ تحریر
ابھی زیر تکمیل تھی کہ حکام بالا کا فون آ گیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">سلام دعا کے بعد حال سے پہلےچال کامعہ طول و عرض بلد پوچھا گیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">پھر صحت اور نیت کا
یکے بعد دیگرے معلوم کیا گیا۔ اول الذکر
کے جواب میں ٹھیک ہے کہا گیااور موخر
االذکر کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا گیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">مقصدمحض عاجزی کا
اظہار تھا۔ مگر اس جملہ معترضہ پر گرفت کی گئی اور باقی کی کاروائی اور
جواب طلبی تعطیلات کے اختتام تک موخر کر
دی گئی۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اب ہم ہاتھ میں تسبیح پکڑے کام پر جاتے ہیں۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">سید عاصم علی شاہ۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">میرے بلاگ </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span>‘’</span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نقش فریادی'' کے
وزٹ کے لئے کلک کریں ۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><a href="http://naqshefaryadi.blogspot/">http://naqshefaryadi.blogspot</a></span><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اور ''نقش فریادی'' کے فیس بک پیج کے لئے۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<a href="http://wwwfacebook.naqshefaryadi/"><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">http://wwwfacebook.naqshefaryadi</span></a><span lang="AR-SA" style="font-family: "Arial","sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-46014603044294515852015-05-03T13:10:00.001+05:002015-05-03T13:10:51.316+05:00بخشو'' کے تخلیق کاروں سے چند گزارشات۔۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL"></span><br /></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<b><span dir="RTL" lang="ER" style="color: blue; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<b><span dir="RTL" lang="ER" style="color: blue; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">تحریر: سید عاصم علی شاہ</span></b><b><span dir="RTL" lang="ER" style="color: blue; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">وسعت اللہ خان معروف کالم نگار اور قلم کار ہیں ہم جیسے
''قلم مار'' انکے آگے کیا بیجتے ہیں۔ خان صاحب کالم پہلی بارروزنامہ ایکسپریس میں پڑھا جو انکا بھی</span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> ایکسپریس میں پہلا کالم تھا۔ مگر
چند کالم پڑھ کر محسوس ہوا کہ ان کے کالم''ا سپانسرڈ ''سے لگتے ہیں پھر بی۔بی۔سی جیسے
ادارے سے انکی وابستگی ہمارے اس شک
مزید پختہ کرتی ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس
نے 1965 ء کی جنگ میں لاہور پر ہندوستان کے قبضے کی خبر نشر کر کے پاکستانی
عوام اور فوج دونوں میں بد دلی اور مایوسی
پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ چند روز
قبل خان صاحب کا کالم'' بخشو سب کا مگر بخشو کا کوئی نہیں'' پڑھا تو سر پر سے گزر
گیا۔ بار دیگر پڑھا، ایک دو مرتبہ اور پڑھا مگر
بات عقل کو نہ لگی ۔ میری سمجھ میں نہ آ سکا کہ یہ کسی حرماں نصیب کی داستان ہے یا
کسی کف ''ہنر فروش'' کا قصہ ،کسی بخشو،جیدے یا چھوٹے کی سادگی یا مجبوریوں کا بیانیہ ہے یا سفید
جُبے والوں کی مہربانیوں یا پھر من مانیوں
کی''شکایات خونچکاں ''ہے۔لیکن جب معروف چینلز پر بخشو کا کارٹون دیکھا اور محترم
اعتزاز احسن سے پارلیمنٹ کے اجلاس کے
دوران بخشو کا ذکر سن کراتنی تو بات سمجھ میں آئی کہ یہ ضرور کوئی اہم بات ہے جو ہماری ناقص عقل میں آنے سے گریزاں ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہم نے اپنے محلے کے
ایک ''دانشور'' سے وقت لے لیاکہ آخر دانشو
تو دانشور ہوتا ہے چاہے کسی چینل کا ہو یا
گاؤں دیہات کا۔ ہم نے جاتے ہی سوال پوچھ لیا کہ جناب یہ بخشو کون ہے کہ جس کا ذکر پارلیمنٹ میں بھی ہو رہا ہےاورٹی وی
پروگراموں میں بھی۔ ان صاحب نے بلا تعامل چائے منگوائی۔صورتحال کی نزاکت اور چائے دونوں کا خیال کرتے ہوئے ہم سنجیدہ ہو کر بیٹھ
گئے- وہ گویا ہوئے کہ 1948 ء میں اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے
ہوئے ایک سالہ بلونگڑے کا اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا تو ساری دنیا
حیران رہ گئی وہ یک سالہ دشمن کوئی اور
نہیں ہمارا پیارا پاکستان تھا جو ایک
نظریے کے تحت وجود میں آیا اور یہی نظریہ تھا جسے کی بنیاد پر اسرائیل نے ہمیں
دشمن قرار دینے میں پہل کی ۔ یہودی چالاکی اور دوراندیشی کے قائل استعمار
ی پیادوں کو یہ بات آسانی سے ہضم تو نہیں ہوگی پھر بھی یہ بتاتا چلوں کہ خیر و شر کے آخری معرکے میں
مملکت خداد کی سرزمین اور مجاہدوں کا اہم
رول ہوگا۔ حضرت بری امامؒ نے اس جگہ جہاں
اب اسلام آباد موجودہ ہے کے بارے میں
فرمایا تھا کہ یہاں ایک شہر آباد ہوگا جہاں دنیا بھر کے اہم فیصلے ہوا کریں گے۔ <span style="color: red;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">پھر فرمانے لگے کہ جس طرح
ایک شیرخوار کو دودھ کی ضرورت ہوتی
ہے ایسے ہی ایک نوزائیدہ مملکت چلانے کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ موجود ہی نہ تھے جب
پاکستان بنا تو ہندوستان نے پاکستان کے حصے میں آنے والے اثاثے ادا نہیں
کیئے اور ہمیں صفرسے اپنا سفر شروع کرنا
پڑا۔ تفصیل کا وقت نہیں مگر اتنا بتا دوں کہ لیاقت علی خان سمیت ہر بندہ اپنا
کھانا گھر سے ٹفن میں لاتا تھا پہلے وزیراعظم آفس کی میزیں اینٹیں جوڑ کر اور اس پر کپڑا ڈال کر بنائی گئی تھیں۔1948 ء میں
ہی اسی فقر فاقہ کی حالت میں بھارت نے ہم پر جنگ مسلط کر دی اور کشمیر پر قبضہ کر
لیا۔ پاک فوج کے انگریز جنرل کے بھارت پر
جوابی حملے سے انکار کے بعد دل ناتواں سے جو ہو سکا کیا انڈونیشیا کی تحریک آزادی کے لئے چھ سو سے زائد
رضاکاروں کو بھجوانے والے قائد اعظم نے پٹھانوں کو حکم دیا انہوں نے کشمیریوں کے
ساتھ مل کر موجودہ آزاد کشمیر کا علاقہ واپس
لے لیا۔ آزادی کے صرف اٹھارہ سال بعد 1965 ء میں ایک بار پھر بھارت رات کی تاریکی میں حملہ
آور ہوا - نا مساعد حالات کے باوجود
پاکستان نے مقابلہ کیا عرب ممالک، شاہ ایران اور انڈونیشیا نے کھل کر پاکستا ن کی مدد کی اور پاکستان نے بھارتیوں کو
ناکوں چنے چبوا دئیے جس عمر میں وطن عزیز میں شناختی کارڈنہیں بنتا ااس عمر میں
پاک سرزمین نے بھارت کو اپنی شناخت اچھی طرح کروا دی۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">مگر صرف چھے سال بعد ہی ہمیں دو قومی نظریے کےخلیج بنگال میں ڈوبنے کا طعنہ
سنناپڑا۔جغرافیائی دوری ، عادتوں اور نیّتوں کے فرق کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی ہوشیاری کے باعث ہم اپنا آدھا ملک
گنوا بیٹھے۔ادھر سویت یونین سردی سے سکڑے
سمٹے اژدھے کی طرح گرم پانیوں کی طرف پھن اٹھائے پھنکار رہا تھا۔ بھٹو جیسے جہاندیدہ
سیاستدان نے اس کے من کی بھانپ لی
اور افغانیوں کے کان میں پھونک دیا کہ رشیا کسی بھی وقت افغانستان میں آ دھمکے گا لہٰذا تیاری کر لی جائے۔ رشیا افغانستان آیا اور چھا گیا
اسکا اگلا قدم پاکستان میں پڑنے والا تھا۔ بھارت تو چاہتا ہی یہی تھا وہ
بھی بھوکے گیدڑ کی طرح گھات میں بیٹھ گیا
، ادھر ایرانی انقلاب پاکستانی سرحد پر ہچکولے لے رہا تھا یہ وطن عزیز کی تاریخ کا مشکل ترین وقت تھا۔
پاکستان بیک وقت ان
سارے خطرات سے بھی نمٹا بلکہ مجاہدین کی مدد سے رشیا کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا جس سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ مشرقی یورپ
بھی آزاد ہو گیا۔ اصو لاً آزاد ہونےے والی ان ساری ریاستوں کو پاکستان کا شکر گزار
ہونے چاہئے۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اس سارے عمل میں مسلم ممالک خصوساً عرب ممالک نے کھل کر پاکستان کی مدد کی، امریکہ اور دوسرے
روس دشمن ملکوں کو اس جنگ میں لے کر آنا پاکستان کی حکمت عملی تھی ۔افغان
جہاد کو امریکی جنگ کہنے والوں کی خدمت
میں عرض ہے کہ اگر امریکہ اور روس دوست
ہوتے تو امریکہ کبھی اس جنگ میں مجبوراً حصہ نہ ڈالتا جیسے وہ 1971 ء میں نہیں آسکاتھا اور سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ اس
دوران پاکستان نے نہ صرف اپنے افغان بھائیوں کی مدد بلکہ پچاس لاکھ افغان باشندوں
کو اپنے ملک میں پناہ دی اور انہیں پورے ملک میں رہائش اور روزگار کی آزادی دی۔بہر
حال اس دوران ہم نے نہ صرف ایٹم بم بنا لیا بلکہ ایک شاندار میزائل پروگرام بھی
کھڑا کر لیا اس مقصد کے لئے عربوں نے خصوصاً سعودی عرب نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔ اس عمل میں عربوں کی امداد کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمارے منصوبہ سازوں اور افرادی قوت کے علاوہ باقی سب عربوں کا فراہم کردہ تھا۔ <o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ادھر سالوں کے خون
خرابے کے بعد افغانستان میں طالبان کا کنٹرو ل ہو گیااور وہاں ایک اسلامی حکومت
قائم ہو گئی جس نے مثالی امن قائم کر کے
قرون اولٰی کی یاد تازہ کر دی۔ پاکستان کے
تمام مکاتب فکر حتیٰ کہ مولانا شاہ احمد نورانی ؒ اور حافظ سعید صاحب مسلکی اختلاف کے باوجود طالبان کے حامی تھے۔ سارے
اسلامی ملکوں کا اس طرف رجحان دیکھ کر اہل مغرب کی ''کھٹیا'' کھڑی ہو گئی۔ انہیں لگا کہ
دجالی ٹولے کے''حزب اختلاف'' کا بیس کیمپ وجود میں آ چکا ہے۔ لٰہذا اپنے ''ٹوین
ٹاورز'' کی قربانی دے کر اسلامی دنیا کے دو
اہم ممالک افغانستان اور عراق ملیا میٹ کر
دئیے گئے اور ''آفٹر شاکس ''کا سلسلہ گاہے بگاہے ابھی تک جاری ہے۔اس جنگ میں افغانستان اور عراق
کا جو نقصان ہوا سو ہوا مگر پاکستان کا بھی بیڑا غرق ہو گیا۔یہ ملک امن و امان کوترس گیا زندگی لوگوں کے لئے ڈراؤنا خواب
بن گئی پچاس ہزار سے زائد لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑ ھ گئے۔ مگر اب وقت بدل رہا ہے
۔ خیر سے ''انکل سام'' بھی افغانستان میں ویسی ہی حالت کو پہنچ چکا ہے جیسی
کہ ربع صدی قبل رشین فیڈریشن کی ہو گئی
تھی۔ساتھ ہی وطن عزیز کے طول عرض میں دھما
چوکڑی مچانے والے استعمار ی گماشتے بھی اپنے انجام کو پہنچنے لگے ہیں۔ امید ہے کہ افغانستان کے
بدلتے حالات اور وطن عزیز میں پھیلنے والی
امن و سکون کی لہر '' یار لوگوں'' کی طبع
نازک پر گراں گزر رہی ہوگی۔ <o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">آزادی سے لے کر اب تک اگر ہم اپنی حالات، مشکلات
اور وسائل کی کمی کا جائزہ لیں اور اپنی کامیا بیو ں پر بھی نظر ڈال لیں ۔ اپنے دشمنوں کی تعداد گن
لیں اور دوستوں کو بھی شمار کر لیں۔ بنگال سے لے کر کوئٹہ تک اس قوم کے شہدا کے
خون کے قطروں کا بھی حساب کر لیں۔۔ 47 ء کےمہاجروں سے لے کر وزیرستان کے آئی –ڈی –پیز
کی نکل مکانی تک انکی بے سروسامانی اور غریب الوطنی کا احساس کر لیں۔ اینٹوں کی میز
سے لے کر موجودہ پارلیمنٹ کی شاندار بلڈنگ تک کی تاریخ کا جائزہ لے لیں ۔ قائد اعظم کی تقریب حلف برداری میں
استعمال ہونے والی نواب صادق خان عباسی کی گاڑی سے شروع ہو کر
موجودہ وزیر اعظم کے گاڑیوں کے قافلے تک
کو دیکھ لیں۔ قدرت اللہ شہاب سے لے کر وسعت اللہ خان تک حرمت قلم کے
سوداگروں اور شہیدوں کی داستان پڑھ لیں۔ جنرل گریسی سے لے کر جنرل راحیل تک
سپاہ کے کارناموں اور کالی بھیڑوں کا تذکرہ
اٹھا دیکھیں۔ توڑے دار بندوقوں سے لے کر
واہ فیکٹری اور ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا
تک کا فاصلہ ناپ لیں۔<o:p></o:p></span></div>
<br />
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اگر ذرا سا ایمان رکھنے والے ان چیزوں کا جائزہ لیں تو مجھے یقین ہے کہ کوئی شخص اس قوم کی طرف
انگلی اٹھانے کی جرات نہیں گا۔ اسکی
قربانیوں اور کامیابیوں سے انکار نہیں کرے
گا۔کوئی اس کے چند غداروں کی بنیاد پر ساری قوم کو مطعون نہیں کرے گا۔اتنی سخت
حالات اور محدود وسائل کے ساتھ اس مقام تک پہنچنے والی قوم اور ملک کو بخشو،
بھکاری یا بکاؤ مال قرار نہیں دے گا ، عیاش
حکمرانوں، اسٹیبلشمنٹ کے کرپٹ عناصر ، نا اہل اور بے ضمیر اہلکاروں کو نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس بنیاد پر
اپنے خون پسینے سے اس ملک کی آبیاری کرنے والے صاف دامن سیاستدانوں، ایمان
دار افسروں، فوج اور عام آدمیوں کی قربانیوں کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا،
ایران، افغانستان ،روس جیسے ہمسائے اگر
کسی اور ملک کے ہوتے تو وہ بیس سال بھی مشکل سے چلتا۔ مگر اللہ کے فضل و کرم سے آپ
ﷺ کی برکت سے بزرگوں کی دعاؤں اور مسلم
امہ کی امیدوں کے باعث پاکستان قائم و
دائم ہے اور رہے گا۔ لٰہذا بخشو جیسے کردار تراشنے والے اپنے بغض و عناد کے اظہار
کا کوئی اور مناسب طریقہ دریافت کر لیں۔ <o:p></o:p></span></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-21211451694751181342015-05-01T18:08:00.001+05:002015-05-01T18:08:17.075+05:00عالمی یوم مزدور<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">آج ساری دنیا میں سرکاری سطح پر مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا، این-جی-اوز اور دیگر سماجی
تنظیموں نے تقاریب اور ریلیوں کا انعقاد کیا۔ ٹی-وی چینلز </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">اور اخبارات نے
خصوصی ایڈیشن شائع کیے۔ اور مزدور آج بھی حسب معمول مزدوری
کی تلاش میں سرگرداں رہے۔۔۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><a href="http://naqshefaryadi.blogspot.com/">http://naqshefaryadi.blogspot.com</a></span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><a href="https://www.facebook.com/naqshefaryadi">https://www.facebook.com/naqshefaryadi</a></span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-34068795233754501422015-04-30T13:08:00.001+05:002015-04-30T13:12:28.057+05:00پکڑے جاتے ہیں''بلاگرز '' کے لکھے پہ ناحق<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">چندروز قبل ایک ''بلاگستانی''بزرگ کو خواب میں دکھایا گیا کہ جو لوگ خود بلاگ
لکھتے ہیں مگر دوسروں کے لکھے گئے بلاگ نہیں پڑھتے تو روز قیامت نظر انداز کیے گئے تمام بلاگ لوہے
کی بھاری تختیوں پہ لکھ کر انکے گلے میں ڈالے جائیں گے۔پھر وہ اونچی آواز میں
لوگوں کو سناتے پھریں گے جسکا انہیں اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">عزیزان من میں نہیں چاہتا کہ آپ سب میرے وجہ سے اس کیفیت سے
گزریں۔لٰہذا آپ سب لوگ آج ہی نہ صرف میرے تمام بلاگز لفظ بہ لفظ غور سے پڑھیں ،
کمنٹس کریں بلکہ بلاگ کے ممبر بنیں۔اگر
دوسروں کا بھی مطلع کریں گے تو قیامت کے دن میں اسکی گواہی دوں گا۔ باقی بخشش صرف اللہ کے </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہاتھ میں ہے۔ </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">میرے بلاگ
''نقش فریادی'' کا ایڈریس نوٹ فرما لیں۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><a href="http://naqshefaryadi.blogspot.com/">http://naqshefaryadi.blogspot.com</a></span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نقش فریادی کے فیس بک کے پیج کا ایڈریس بھی درج ذیل ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<a href="https://www.facebook.com/naqshefaryadi"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">https://www.facebook.com/naqshefaryadi</span></a><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">آپکا خیر اندیش و دور اندیش۔۔ </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">
</span><span dir="LTR"></span><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> <span dir="RTL"></span><span dir="RTL" lang="ER"><span dir="RTL"></span> <o:p></o:p></span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p> </o:p></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18.6666660308838px; line-height: 21.4666652679443px;">سید عاصم علی شاہ</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18.6666660308838px; line-height: 21.4666652679443px;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div class="MsoNormal">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-33204289205823981262015-04-29T15:38:00.001+05:002015-04-29T15:38:25.636+05:00اللہ تعالٰی کے ہاں ایک مومن کی اہمیت۔۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<b><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 22.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اللہ تعالٰی کے ہاں ایک مومن کی اہمیت۔۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اگر کسی مومن کی (ناحق) قتل کرنے میں زمین و آسمان کی تمام مخلوقات
ملوث ہوں تو اللہ تعالٰی ان سب کو منہ کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔</span><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جامع ترمذی،1398 ) سند صحیح ہے۔۔</span><span dir="LTR"></span><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span>)<span dir="RTL"></span><span dir="RTL"><span dir="RTL"></span> <span lang="ER"><o:p></o:p></span></span></span></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div class="MsoNormal">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-35153533717494263462015-04-27T10:30:00.001+05:002015-04-27T16:33:45.803+05:00محسن نقوی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<b><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">محسن نقوی<o:p></o:p></span></b></div>
<div align="center" class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">واسطہ حسن سے کیا شدت جذبات سے کیا؟<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">عشق کو تیرے قبیلے یا میری ذات سے کیا؟</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">مری مصروف طبعیت بھی کہاں روک سکی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">وہ تو یاد آتا ہے اسکو مرے دن رات سے کیا؟<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">پیاس دیکھوں یا کروں فکر کہ گھر کچا ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">سوچ میں ہوں کہ مرا رشتہ ہے برسات سے کیا؟<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">آج اسے فکر ہے کہ کیا لوگ کہیں گے محسن۔۔۔۔<o:p></o:p></span></div>
<div style="text-align: center;">
</div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کل جو کہتا تھا مجھے رسم و
روایات سے کیا؟؟<o:p></o:p></span></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-29109040868544501872015-04-27T10:15:00.002+05:002015-04-27T10:15:33.425+05:00حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ جون ایلیا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt; line-height: 16.7pt;">حالتِ حال کے سبب، حالتِ
حال ہی گئی</span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">شوق میں کچھ نہیں گیا،
شوق کی زندگی گئی</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;"><span dir="LTR"></span>.</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">ایک ہی حادثہ تو ہے اور
وہ یہ کہ آج تک</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">بات نہیں کہی گئی ، بات
نہیں سنی گئی</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;"><span dir="LTR"></span>.</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">بعد بھی تیرے جانِ جاں ،
دل میں رہا عجب سماں</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">یاد رہی تیری یہاں، پھر
تیری یاد بھی گئی</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;"><span dir="LTR"></span>.</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">اس کی امیدِ ناز کا ہم سے
یہ مان تھا کہ آپ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">عمر گزار دیجئے، عمر گزار
دی گئی</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;"><span dir="LTR"></span>.</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">اس کے وصال کے لئے، اپنے
کمال کے لئے</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">حالتِ دل، کہ تھی خراب
،اور خراب کی گئی</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;"><span dir="LTR"></span>.</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">تیرا فراق جانِ جاں! عیش
تھا کیا میرے لئے</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">یعنی تیرے فراق میں خوب
شراب پی گئی</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;"><span dir="LTR"></span>.</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 8pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;">اس کی گلی سے اٹھ کے میں
آن پڑا تھا اپنے گھر</span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: 16.7pt; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 22.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt; line-height: 115%;">ایک
گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی</span><span dir="LTR"></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 12pt; line-height: 115%;"><span dir="LTR"></span>.</span></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-59818548089726360742015-04-24T09:36:00.004+05:002015-04-24T09:36:54.993+05:00کیا یہی دوستی ہے۔۔ <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<b><span dir="RTL" lang="ER" style="color: blue; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">تحریر: سید عاصم علی شاہ</span></b><b><span dir="RTL" lang="ER" style="color: blue; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جدید دنیا میں زندہ قومیں اپنی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم رکھتی ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کے لئے دوسرے ممالک سے
تعلقات کو بڑھایا جاتا ہے اور دوستی کو مزید مضبوط کیا جاتا ہے۔ اچھے دوستوں کو قربان کر کےنقصان تو اٹھایا جا سکتا
ہے فائدہ نہیں۔مگر یمن کے مسلے پر
پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث سے لگتا ہے کہ
ہماری نا سمجھی ہمیں لے ڈوبے گی اور ہم اپنے قابل اعتبار اور آزمودہ دوستوں کو کھو
بیٹھیں گے۔ تین چار دن کی اس بحث میں ملکی
مفادات اور تعلقات سے متعلق پالیسی کے پرغیر محتاط انداز گفتگو اختیار کیا گیا۔ اس
طرح پارلیمنٹ کے اندر اور باہر قوم تین گروہوں
میں تقسیم ہو گئی۔ایک وہ جن کی ہمدردیاں سعودیہ عرب کے ساتھ ہیں دوسرا انٹی سعودی طبقہ اور تیسرا گروہ جو''صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں'' کے
مصداق بظاہر غیر جانبدار رہنے کا مشورہ دے
رہا ہےمگر اندرون خانہ دوسرے گروہ کا ہی
ہم رکاب ہے۔ اول الذکرانٹی امریکن مشہور ہیں جبکہ آخرالذکر دونوں پرو امریکن۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اس بحث کے دوران اکثر لوگوں کے چہرے کھل کر بلکہ دھل کر
سامنے آئے۔ کیسے کیسے لوگ یہاں بھانت
بھانت کی دانش سمیٹ کر لائے۔جو پارلیمنٹ میں تھے وہ اندر گرجے برسے اور جو غیر پارلیمانی لوگ تھے وہ باہر نیوز چینلز اور
اخبارات میں بھڑکتے رہے ۔کسی نے سعودی
جارحیت کا راگ الاپا، کسی نے ایرانی ناراضی سے ڈرایا،کسی نے اتحاد امت کے پارہ
پارہ ہونے کی داستان سنائی۔ کسی نے اپنی خطابت کا رنگ جمایا اور کسی نے بخشو کاقصہ
سنایا۔ اس ساری بحث میں اگر کسی نے معاملہ فہمی
،سیا سی بصیرت اور حقائق سے بھرپور گفتگو کی ہے تو وہ بی-این-پی کے چئیر مین محمود خان اچکزئی ہیں۔جنہوں
نے پاکستان کے مسائل ،سعودیہ کے حالات اور
امت مسلمہ کو در پیش چلنجز اور انکی
وجوہات پر بات کی ۔مگر افسوس میڈیا نے انکے خطاب کو کوئی کوریج نہیں دی بلکہ یوں
کہا جائے کہ جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا۔ورنہ جس میڈیا کی نظر سے راجیش کھنہ کی بیماری ، رانی
مکھر جی کا موٹاپااور ہالینڈ کی مرغی کے ساتھ کھیلنے والی بلی بھی نہ چھپ سکی اس نظر
سے اچکزئی صاحب کی 30 منٹ سے زائد دورانیے کی اتنی اہم گفتگو کیسےمس ہو گئی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">صاحبزادہ حامد رضا
نے کہا کہ ہم حکومت کو پارلیمنٹ کی قرارداد سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے نہیں
دیں گے۔صاحبزادہ صاحب نے واضح نہیں کیا کہ
وہ اسی غیر آئینی اور دھاندلی کی پیدا وار پارلیمنٹ کی قرار داد کی بات کر رہے ہیں
جس کے باہر چار ماہ تک دھرنا مار کے بیٹھے رہے۔ایک اور صاحب ہیں ایک ملک گیر مذہبی جماعت کے سر براہ بھی ہیں۔ پاک آرمی کو پیشکش کر چکے
ہیں کہ اگر اجازت ہو تو افغانستان جا کر طالبان کا صفایا کر دیں گے۔ مگر موصوف کو
شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کے خلاف لڑنے والے طالبان کا خیال نہیں آیاشائد
کسی نے بتایا ہوگا کہ یہ اصلی والے طالبان نہیں ہیں اصل خطرہ تو سرحد پار والے طالبان ہیں تو پھر نقلی طالبان بلکہ ظالمان کے خلاف اپنی توانائی کیوں صرف کریں بہر حال اگر انہیں قوم کی تکلیفوں اور فوج کی مشکلات کا اتنا خیال تھا تو وزیرستان ہی چلے جائیں ۔ سنا
ہےموصوف نے بھی سعودی عرب کی مدد کرنے کی مخالفت کر دی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ہم
حرمین شریفین کے لئے تو جان بھی دے سکتے
ہیں مگر آل سعود کی حکومت کے لئے نہیں۔اب
انہیں کون سمجھائے کہ اللہ تعالیٰ نےہی آل
سعود کو حکمران بنایا ہے اور وہی خادم حرمین شریفین بھی ہیں اور سعودی سرحدوں پر
حملہ در اصل حرمین شریفین پر حملہ ہے۔ <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">قارئین کرام میری
باتیں آپ کو شائد غیر مربوط محسوس ہوں مگر
مدعا ایک ہی ہے۔کہانیاں مختلف مگر مقصد ایک ہی ہے۔ جب گیارہ ہزار تین سو کلو میٹر دور جب امریکہ کو
افغانستان سے خطرات لاحق ہوئے تو '' مُکا
مینوفیکچرر انڈسٹری'' کے پہلے اور آخری روح رواں صدر پرویز مشرف المعروف بیک فون
لم لیٹ سرکارنے لاجسٹک سپورٹ کی پیش کش کردی
اتنی عجلت اور سرعت سے کہ فون کرنے والا
وزیر خارجہ اور اعلٰی امریکی حکام تک حیران رہ گئے جس کا ذکرسابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے اپنی کتاب میں بھی کیا اسکے علاوہ پارلیمنٹ سے لے کر میڈیا تک بہت سوں نے انکی ہاں میں ہاں ملاکر گویا قومی خدمت سر انجام دی مگر انہی دور اندیش
لوگوں میں سے کسی کو سعودی سرحدوں کی طرف
بڑھتے حوثی باغی جو دور
مار مزائلوں سے بھی لیس ہیں شائد موسمی خرابی کے باعث نظر نہیں آئے۔نہ ایران ے روزانہ کی بنیاد پر
یمن جانے والی پروازوں کا علم ہوگا نہ باغیوں کے علاقوں میں نام نہاد امریکی این-جی-اوز کی سرگرمیوں
سے آگاہی ہو گی۔ جوصاحب فہم فراست کل تک
افغانستان پر امریکی جارحیت پر بغلیں بجاتے تھے آج سعودیہ کا جارح کہہ رہے
ہیں ۔ جناب کیا کہنے۔بھٹو اور ضیاء کی روس مخالف افغان پالیسی کے ناقدین امریکہ کے
افغانستان پر حملے کےحامی تھے اور آج بھی
ہیں۔تب مخالفت اور یہاں حمایت ۔ یہ تضاد کیوں۔؟ خیر اسفند یار ولی خان نے تو صاف کہہ دیا کہ یمن میں سعودیہ کی مدد
کے نتائج ہمیں بلوچستان میں بھگتنے پڑیں گے۔ اور ہمیں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ
انہوں نے ایسا کیوں کہا؟<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">دوسری طرف دیکھئے کچھ لوگ سعودیہ کی مدد کرنے کے بجائے سعودی
عرب اور یمن کے درمیان ثالثی کرانے کا
مشورہ دے رہے ہیں۔ لیکن جب امریکہ کی ذاتی
خواہش پر طالبان اور امریکہ کے درمیان قظر
میں مذاکرات کا آغاز ہوا تو یار لوگوں میں
بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ۔بیچارے عمران خان بھی اسی طرز پر پاکستانی طالبان
اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں مدد کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے پشاور میں طالبان کا
دفتر کھولنے کی تجویز دی تھی پھر کیا تھا ''ثالث پسندوں '' سے یہ برداشت ہی نہیں ہو کہ انکے علاوہ کوئی
ثالثی کی بات کرے یا ثالثی کرائے-آخر انکی ثالثی آئی –ایس-او سرٹیفائیڈ ہے کوئی
مذاق تھوڑی ہے۔انہوں نے کپتان صاحب کے وہ لتے لئے کہ خدا کی پناہ۔آج ثالثی مگر کل ثالثی کی مخالفت ۔چہ معنی؟ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا کے
۔تضادات کی داستان طویل ہے کیا کیا
بتا ئیں۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">بات ہو رہی تھی قومی مفاد کی۔پاکستان اور سعودی عرب کے
درمیان برادرانہ تعلقات کا آغاز 1947 ء
میں قیام پاکستان سے ہوا۔ پھر یہ تعلقات ،1948 ، 1965 کی پاک
بھارت جنگوں میں ہر آزمائش پر پورے اترے پھر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہو گیا
حسب وعدہ امریکی بحری بیڑہ مدد کو نہ آیا
مگر عرب اس بار بھی مدد کو آئے۔ 1998 میں
ایٹمی دھماکوں کے بعد جب عالمی پابندیاں
لگی تو عرب ملکوں خصوصاً سعودی عرب نے چار
سال تک مفت تیل دے کر ہماری معیشت کوسہارا
دئے رکھا۔1999 میں کارگل وارہو یا دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی
پندرہ سالہ جنگ ،2005 میں آنے والا زلزلہ
ہو یا 2010 کا تباہ کن سیلاب سعودی بھائی ہر موقع پر ہمارے شانہ بشانے کھڑے نظر
آئے۔ انہوں نے کبھی دی جانے والی امداد کا حساب مانگا نہ بدلے میں کچھ چاہا۔نہ
کبھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی نہ ہماری خارجہ پالیسی پر اثر انداز
ہونے کی کوشش کی۔ عالمی سطح پر اور یو-این-او میں ہر مسلے پر پاکستان کی دو ٹوک
حمایت کی۔ علاوہ ازیں 30 لاکھ سے زائد پاکستانی عرب ملکوں میں روزگار کے سلسلے میں
مقیم ہیں جو اربوں ڈالر پاکستان بھیج کر ملکی معیشت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا
کر رہے ہیں۔اور یار لوگ ان تعلقات کو شریف برادران کے ذاتی تعلقات قرار دے کر رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے گزشتہ چند ہفتوں سے
جاری ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان
مذاکرات بلاآخر نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ اور ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے پر
آمادہ ہو گیا ہے۔اس معاہدے کے بعد
ایران ایٹمی اسلحہ نہیں بنا سکے گا۔بدلے
میں ایران پر سے اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ایسا صرف اس لئے ممکن ہوا کہ
ایرانی معیشت عالمی پابندیوں کے باعث مشکلات کا شکار تھی جس پر مجبوراً ایران کو
سمجھوتا کرنا پڑا۔ مگر اپنے تمام تر مسائل اور بیرونی دباؤ کے با وجود پاکستان نے
اپنا ایٹمی پروگرام کامیابی سے مکمل
کیا اس عظیم
کامیابی پر سیاسی وعسکری قیادتوں کی
ہمت اور مستقل مزاجی کی داد دی جانے چاہیئے کہ بھٹو کے شروع کردہ
ایٹمی پروگرام کو باقی آنے والے تمام قیادتوں نے اپنی ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھا ۔ مگر اس
سارے عمل میں عرب ریاستوں خصوصاً سعودی عرب کے تعاون کا نظر انداز نہیں کیا جا
سکتا۔جنہوں نے شروع سے لے کر آخر تک ہمہ
قسمی تعاون کیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">یہ تعاون ، احسانات اور تعلقات اپنی جگہ مگر سب سے بڑھ کریہ کہ وہاں مسلمانوں کے سب سے
مقدس مقامات حرمین شریفین واقع ہیں جن کی حفاظت ہر مسلمان کے ذمہ ہے۔ ہم کیا سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نہ گئے تو حرم کا
دفاع کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حرم کی حفاظت اللہ
پاک خود کر لیں گے جیسے ابراہ کے آنے پر
کی تھی۔لیکن یہ ایک موقع ہے اس سعادت کو
پانے کا اور خوش نصیبوں میں اپنا نام لکھوانے کا۔اگر حرمین شریفین کی طرف غلط
ارادے لے کر بڑھنے والے باز نہیں آ رہے تو ہم کیوں شرما رہے ہیں۔ بہر
حال یہ حقیقت ہے کہ سعودی سرحدوں کی طرف
بڑھتا خطرہ دراصل سرزمین حرمین کے لئے خطر ہ ہے۔جس کا دفاع سعودی عرب سمیت ہر
مسلمان کا فرض ہے۔لہٰذا یمن کی طرف سے اٹھنے والے
خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔<o:p></o:p></span></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="color: red; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> </span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">مذاکراتی عمل ضرور
شروع کیا جانا چاہیئے مگر یہ بھی دیکھا جائے کہ دوسری پارٹی مذاکرات کرنا بھی چاہتی ہیں کہ نہیں۔ انکی
سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، انکے مقاصد جاننے کی کوشش کی جائے۔انکے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کا دماغ پڑھنے کی
ضرورت ہے۔ ایرانی جنرل کی طرف سے سعودیہ
کو دی جانے والی واضح دھمکی یہ ثابت کرتی ہے کہ ایران یمن میں دلچسپی لے رہا ہے مگر ساتھ ہی یہ سوچنے
پر مجبور کرتی ہے کہ ایران کی وہاں دلچسپی کیا وجہ ہے اسے کس بات کی جلدی ہے۔اگر حوثیوں کی منزل سعودی عرب نہیں تو انہیں ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ امن چاہتے ہیں۔انہیں
سعودی سرحدوں سے دور ہٹ جانا چاہیئے۔ہتھیار ڈال کر مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیئے۔یاد رکھیں اگر
سعودیہ عدم استحکام کا شکار ہوا تو کوئی مسلمان ملک نہیں بچے گا۔ اگر ہم حجاز مقدس
کی حفاظت کرنے کےلئے راست اقدامات کے
بجائے تاویلیں گھڑنے بیٹھ جائیں گے تو سمجھ لیں دشمن اپنا منصوبے میں آدھا
کامیاب ہو چکا ہے۔ سرزمین حرمین مسلمانوں
کی مذہبی اور ملی وحدت کی نشانی ہے
مسلمانوں پر غلبے کے لئے اس پر قبضہ ضروری ہے۔ جیسے سلطنت عثمانیہ جو کہ خلافت کا تسلسل اور مسلمانوں کی واحد طاقت تھی جس سے
یورپ کے ایوان لرزتے تھے جب غیروں کی
سازشوں اور اپنوں کی بے حسی کے باعث اس کا شیرازہ بکھرا تو اس کے بعد مسلمان سنبھل نہ سکے اور انہیں
سرحدوں کے نام پر ٹکڑوں میں تقسیم
کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ پھر وہی
تاریخ دہرائی جائے ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔<span style="color: red;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-87575153464718655322015-04-16T10:45:00.001+05:002015-04-16T10:45:54.233+05:00''پارلیمنٹ''<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL"></span><br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">عرب ممالک نے پاکستان کی مضبوط جمہوری روایات سے متاثر ہو
کر فیصلہ کیا ہے کہ اب دنیا میں ''کہیں بھی'' جنگ ہو سیلاب آئے یازلزلہ تباہی مچائے ہم یونہی منہ اٹھائے مدد کو نہیں جائیں گے بلکہ
پارلیمنٹ سے باقاعدہ اجازت لی جائے گی۔یہی جمہوریت کا حسن ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">(خیال آرائی)<o:p></o:p></span></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-57653709508849176032015-03-31T14:45:00.002+05:002015-03-31T14:45:30.689+05:00یمن کے حالات اور پاکستان<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">یمن میں حکومت اور حوثی باغیوں کے
درمیان کافی عرصے سے لڑائی جاری ہے۔ملک کےوسیع علاقے پرباغیوں کا قبضہ ہے۔ان کی بڑھتی ہوئی تخریبی سرگرمیوں</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span> اور سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کو درپیش ممکنہ خطرات کے پیش نظرسعودیہ کے نئے بادشاہ نے باغیوں پر براہ راست حملے کا
حکم دے دیا ہے۔ حکومت پاکستان نے یمن کی
صورتحال کے حوالے سے سعودیہ عرب کی حمایت کا</span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اعلان کیا ہے۔ تاہم پاکستان نے براہ
راست فریق بننے کے بجائے اس مسلے کے پرامن حل کی کوششوں پر زور دیا ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">پاکستان کئی سالوں سے خود دہشت گردی کا شکار ہے اور کوئی نیا محاز کھولنا عقلمندی نہیں ہوگی۔ یہاں بات صرف آل سعود کی حکومت کی نہیں بلکہ
حرمین شریفین کے اور روضہ رسولﷺ کے تحفظ
کا معاملہ ہے۔ جو ہر مسلمان پر لازم ہے۔ جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔وزیر
دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے درست کہا کہ اگر سعودیہ عرب اور
حرمین شریفین کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے تو پاکستان </span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہر حال میں سعودیہ کا دفاع کرے گا۔ تمام مسلم ممالک کا اس حوالے سےیہی موقف
ہے۔خصوصاً عرب لیگ نے واضح طور پر اس عزم
کا اعادہ کیا ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہمارے ہاں گرما گرم ماحول بن گیا
ہے۔ ملک کے طول و عرض میں نت نئی بحثیں چھڑ گئی ہیں۔ چھوٹے چائے خانوں سے لے کرپارلیمنٹ
تک ، پیالی میں طوفان اٹھانے کے ماہر، پراپیگنڈا ایکسپرٹس، دانشور،صحافی اوراینکرز ، مقررین حضرات ،علماء کرام تک سب رائے زنی میں مشغول ہیں۔ کوئی فوج کو سعودیہ
بھیجنے کی بات کر رہا ہے تو کوئی شدید مخالفت کر رہا ہے۔کسی کے نزدیک یہ یمن کا
داخلی مسلہ ہے کوئی اسے سعودیہ کی جارحیت
قرار دے رہا ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ یہ سب ایران کی شہ پر ہو رہا ہے ۔یہاں لوگوں</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">رائے میں واضح تضاددیکھنے
میں آ رہا ہے۔یہ تضاد بلاوجہ نہیں بلکہ انکی قلبی وابستگی،طبعی رجحان اور مذہبی
نقطہ نظر کا عکاس ہے۔شام اور عراق میں ایران کی مداخلت کے حامی سعودیہ کے یمن پر حملے کی سخت مخالفت کر رہے
ہیں اور حکومت کو اس معاملے سے دور رہنے
کا مشورہ دے رہے ہیں کیونکہ اس سے ایران
کی ناراضی کا خطرہ ہے۔ایک دوسرا طبقہ سعودیہ کی ہمہ قسمی مدد کی ترغیب دے رہا ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">حالانکہ غیر جانبدارانہ رائے یہ
کہ ایران کا یمن میں کیا کام؟ جبکہ ایران اسکی مسلسل تردید بھی کر رہا ہے کہ وہ یمن
میں خرابی کا ذمہ دار نہیں ہے۔مگر دوسری طرف حزب اللہ کے حسن نصراللہ سعودیہ کو یمن میں مداخلت پر
وارننگ دے رہے ہیں۔کچھ ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ
ایران اس سارے معاملے میں ضرور دلچسپی لے رہا ہے شام اور عراق میں ایران کی واضح مداخلت سامنے رکھتے ہوئے سعودیہ کا محتاط
ہونا لازم تھا۔اس سے پہلے کہ شام ،عراق اور یمن میں سلگتی آگ سعودی عرب تک پہنچے
اس نے اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر یمنی باغیوں
پر حملہ کر دیا۔سعودیہ کا ایسا کرنا چاہئے تھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اصل میں مغرب کےشاطر دماغ برسوں
سے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے خواہش مند ہیں تاکہ اسلامی دنیا کی طاقت اور وسائل کوآپس میں لڑا کر تباہ و
برباد کر دیا جائے۔''عرب بہار'' کے خوشنما نعرے کے تحت شروع ہونے والی تحریکوں میں
اندرون خانہ کیا ہو رہا ہےیہ اب ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ شام میں سنی اپوزیشن کو اسلحہ
فراہم کرنے والےممالک عراق میں شیعہ حکومت
کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ وہی طاقتیں یمن
میں حکومت مخالف القائدہ پر حملے
کرتی ہیں اور دوسری طرف حوثی باغیوں کو امداد دے رہی ہیں۔مقصد صرف ایک ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑا کر انہیں کمزور کرو امداد اور اسلحے کے عوض ان کے وسائل پر ہاتھ صاف کرو۔ مسلم دنیا کو اب سنجیدگی
سے اپنے مسائل اور حالات پر غور کرکے
مناسب فیصلے بروقت کرنا ہونگے ورنہ یہ حالات کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت
ہوسکتے ہیں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">استعماری قوتیں ہمیشہ مسلمانوں کے آپس کے اختلافات اور اندرونی
خلفشار سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔آج بھی مسلم ممالک میں لسانی، علاقائی اور <span style="color: red;"> </span>فرقہ وارانہ<span style="color: red;"> </span>مسائل کو ہوا دے کرتصادم کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ شیعہ اور
سنی مسالک میں واضح اختلاف موجود ہے۔ دونوں
مذاہب کے لوگ تقریباً تمام مسلم ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔مغرب کا خیال ہے کہ اگر ان دونوں گروہوں کے درمیان جنگی کیفیت پیدا کر دی جائے تو سارا عالم اسلام جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ اور مغربی دنیا اس نہج پر کیوں سوچ رہی ہے۔؟ ان کے اس منصوبے کا انہیں کیا نتیجہ نظر آ رہا
ہے۔؟<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جواب بڑا سادہ سا ہے۔ ایران میں
انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب پسندوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ان کے ذہنوں
میں اس انقلاب کو ساری دنیا میں پھیلانے کا منصوبے پنپنے لگا۔ اسی سوچ کے تحت
دوسرے ممالک میں پھیلے اپنے ہم مذہب لوگوں کا متحرک کرنا شروع کر دیا۔ایسا لگتا ہے
کہ ''انقلاب پسندوں" کے توسیع
پسندانہ عزائم مسلم دنیا کوآپس میں لڑانے کی مغربی خواہش کو حقیقت میں بدل دے گی۔موجودہ حالات دیکھ کر لگتا
ہے کہ شام میں براہ راست فوجی مداخلت،عراق اور لبنان میں اپنے حمائتیوں کی کھلی پشت پناہی کے بعد اب ایران کی نظریں یمن پر لگی ہیں۔ایران کے
روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای قریبی ساتھی اور با اثر رکن پارلیمنٹ علی رضا ذکانی کا کہنا ہے کہ تین عرب ممالک شام، عراق اور لبنان کے بعد اب
یمن بھی ہماری جیب میں آ گیا ہے۔اب ہماری نظریں سعودیہ عرب پر ہیں۔ اس طرح کی
انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ خطے میں
جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں۔ سب سے افسوس ناک
پہلو یہ ہے کہ یہاں مسلمان ایک دوسرے کے
مقابل کھڑے ہیں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">یہا ں ایک اور بات کا ذکر کرتا چلوں کہ مختلف مذہب ،زبان ،سوچ اور تہذیب و تمدن کےحامل دو ملک
بھارت اور ایران میں ایک قدر مشترک ہے کہ
دونوں ایک عرصے سے اپنی سرحدوں اور اثر و
رسوخ میں اضافے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔اسکی خاطرانہوں نے خطے میں امن و امان کی صورتحال کو خطر ناک بنا
دیا ہے اس کھیل میں انہیں میں مغربی قوتوں کی آشیرباد
حاصل ہے۔ اپنے ہمسایہ ممالک میں مداخلت، سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ اور مخصوص
گروہوں کی پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی بات
نہیں ہے۔عالمی طاقتیں بھارت کو جنوبی ایشیا اور ایران کو مشرق وسطٰی میں طاقتور
دیکھنا چاہتی ہیں۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ مخاصمت بیرونی مداخلت کے ساتھ ساتھ مقامی علماء کے
غیرسنجیدہ رویے کا نتیجہ ہے۔ اول توموجودہ
حالات کے پیش نظر آپس کے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اگر ایسا ممکن نہیں تو کم سے کم برداشت کا ماحول پیدا کیا
جائےاور ایک دوسرے کے مقدسات اور مذہبی جذبات کا احترام کیا جائے۔ تاکہ دلوں میں
پلنے والی فرقہ وارانہ نفرتیں ختم نہیں تو
کم ضرور سکیں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نئے سعودی بادشاہ سلمان بن
عبدالعزیز اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ بحرین، عراق ،اورشام کے بعد اب یمن میں باغیوں کی بڑھتی سرگرمیاں ایران کی کھلی حمایت اور امریکی دوغلے پن کے کے بغیر ناممکن تھیں۔ اس لئے انہوں نے امریکہ کو
اعتماد میں لئے بغیر یہ فیصلہ کیا۔ ترکی، اردن،قطر،کویت،مراکش،سوڈان،متحدہ عرب
امارات کے طیارے اس آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایران اور روس کے سوا تمام اہم
ممالک نے اس آپریشن کی حمایت کی ہے۔یہاں ایران کے کردار پر جتنا افسوس کیا جائے کم
ہے۔ اگر ایران واقعی امریکی عزائم کی راہ
میں حائل ہونا چاہتا ہے جیسا کہ وہ ہمیشہ ظاہر کرتا ہے تو اسے مسلم ممالک کو مضبوط کرنا چاہیئے
تھا مگر موجودہ منظر نامہ اس کے بر عکس نظر
آ رہا ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">سعودی عرب کی پوزیشن 80 ءکی دہائی
کے پاکستان سے کچھ مختلف نہیں ہے جب روس کے افغانستان پر حملہ کےبعد پاکستان یہ
سوچنے پر مجبور ہوا کہ وہ کرے تو کیا کرے؟آگے بڑھ کر روس کا راستہ روکے یا آنکھیں
بند کر کے بلی کا انتظار کرے۔ اس وقت کی قیادت نے حالات کے پیش نظر جو فیصلہ کیا
اس پر بحث کا یہ وقت نہیں ہے۔ مگر جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس جنگ میں حصہ
نہیں بننا چاہیئے تھا ان سے سوال ہے کہ کیا پھر روس صرف افغانستان تک محدود رہتا؟
اگر نہیں تو پاکستان کا آج کیا حال ہوتا۔ اور جو لوگ پاکستان کی افغان جنگ میں
شمولیت کو درست سمجھتے ہیں وہ بھی آج ملک کے حالات دیکھ لیں۔ آج امریکہ کی وجہ سے
ملک میں بد امنی اور دہشت گردی ہے تب یہی
حالات روس کی وجہ سے پیدا ہوتے۔ دونوں
صورتوں میں یہی کچھ ہونا تھا کیونکہ پاکستان شروع سے عالمی طاقتوں کے نشانے
پر ہے۔ لہٰذا آج کے حالات میں جو بھی
فیصلہ کیا جائے سوچ سمجھ کر اور ملکی اور امت مسلمہ کے مفاد کو سامنے رکھ کر کیا
جائے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<br />
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-62075151944208995802015-01-24T16:43:00.000+05:002015-01-24T16:43:08.448+05:00مزدور کی یومیہ اُجرت، خط غربت اور پاکستان<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> آج پاکستان
اپنی تاریخ کے سخت ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی کا عفریت منہ
کھولے کھڑا ہے۔ دوسری طرف بےروزگاری، غربت،کرپشن ،اختیارات کا غلط استعمال،بد
انتظامی اور فرقہ وارانہ مخاصمت اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔زمانے گزر گئے
مگرغربتکوکبھی عیب</span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نہیں سمجھا گیا تھا۔ لیکن آج یہ لفظ
ندامت اوراحساس کمتری کا باعث ہے۔ امتیاز پسند لوگوں کا پیدا کردہ طبقاتی فرق کبھی نہیں مٹ سکتا ۔سکیورٹی گارڈز غیر معمولی پروٹوکول
، ایلیٹ کلاس کے لیے الگ رہائشی کالونیوں
کی تعمیرایسے اقدامات نے دونوں طبقات کے درمیان ایک بلند فصیل حائل کر دی ہے۔ چند ہاتھوں میں سرمایے کا ارتقاز صورتحال کو مزید
گھمبیر بنا رہا ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> عالمی فلاحی ادارے آکسفیم کے مطابق دنیا کے ایک
فیصد امیر لوگوں کے پاس دنیا کے ننانوے فیصد اثاثے ہیں۔ یہاں بھی صورتحال کچھ
مختلف نہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑسے زائد لوگوں کی آمدن قابل ٹیکس ہے مگر صرف پچیس
فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔اوسطاًنو لاکھ ڈالر کے اثاثہ جات رکھنے والے ساٹھ فیصدسے
زائد ارکان پارلیمنٹ ٹیکس ہی نہیں دیتے۔
ایک سابق ٹیکس ایڈمنسٹریٹر ریاض نقوی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ٹیکس سسٹم کے مطابق غریب آدمی امیر وں کو سبسڈی دے رہا ہے۔ یعنی قلیل آمدن کے باوجودغریب غربا اشیاء
صرف پر بھاری ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ بڑے کاروبار ،صنعتی یونٹس اور جاگیروں کے مالکان اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس بھی نہیں
دیتےبلکہ اپنےسیاسی و کاروباری تعلقات بنک
سے قرضہ لینے اور معاف</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کرانے </span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کے لئے استعمال کرتے ہیں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">یوں عام آدمی دن بدن غربت کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور
دوسری طرف امراء کی تعداد اور انکی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ایک غیر
سرکاری تھنک ٹینک "سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ" کی رپورٹ برائے </span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span>2012-13</span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کے مطابق ملک میں قریباً
6 کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچےزندگی گزار رہے ہیں۔ صوبائی تقسیم کے لحاظ سے یہ شرح بلوچستان میں 52 فیصد،
سندھ میں 33 فیصد، خیبر پختون خواہ میں 32
فیصد اور پنجاب میں 19 فیصد زائدبنتی ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا
کہنا ہے کہ پچھلے 5 برسوں میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی بڑھ کر تعداد دوگنی
ہو گئی ہے انکے پیش کردہ اعداد
شمار کے مطابق54 فیصد پاکستانی خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔مگر یہ
اعداد و شمار حکومت کی وضع کردہ غربت کی نئی تعریف کے مطابق ہیں۔حکومت نے خط غربت
کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ اب یومیہ دو ڈالر یعنی قریباً200 روپےروزانہ (6000 روپے
ماہانہ) کمانے والے لوگ خط غربت سے نیچے شمار کیے جاتے ہیں۔ جبکہ عالمی بنک کے
مطابق پاکستان کی 60 فیصدسے زائد آبادی کی
یومیہ آمدن دو ڈالر سے بھی کم ہے جبکہ ایک ڈالر یومیہ کمانے والے لوگ بھی 25 فیصد سے زائد ہیں</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہم یہاں 400 یومیہ کمانے والے کا رونا رو رہے ہیں جو کہ
حکومت کی نظر میں غریب شمار ہی نہیں ہوتے۔ اگر تین یا چار ڈالر یومیہ کمانے والوں
کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد 90 فیصد سے بڑھ جائے گی۔ جبکہ حکومتی اعداد و شمار کے لحاظ سے 54 فیصد
لوگ خط غربت سے نیچے ہیں اور اصل تعداد کیا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">
مالی سال 2014 میں حکومت نے ایک مزدور کی ماہانہ 12000 تنخواہ مقرر کی ہےاس
حساب سے روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کی یومیہ اجرت 400روپے بنتی ہے۔دوسری طرف اگر اخراجات دیکھے جائیں تو
یہ اجرت کچھ بھی نہیں۔ایک امریکی سرکاری ادارے کی سروے رپورٹ کے مطابق ایک عام پاکستانی
کی کل آمدنی کا 47.7 فیصد حصہ خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ یعنی 12000 ماہانہ
کمانے والے کے 5724 روپے ماہانہ راشن پر
خرچ ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں 400
دیہاڑی کمانے والے مزدور کے 190 روپے روزانہ کھانے پینے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔حا لانکہ
چھوٹی سی فیملی کا تین وقت کے کھانےاور دودھ چائے کاروزانہ خرچ تین سو زیادہ ہے۔ بالفرض امریکی ادارے کی رپورٹ کو درست مان لیا جائے تو سوچیئے کہ 190 روپے خوراک پر خرچ کرنے کے بعد اس محنت
کش کے گھر کوئی مہمان آ جاتا ہے، یا کوئی بیمار
ہو جاتا ہے یا اسےاچانک کسی کی عیادت یا تعزیت کے لیے جانا پڑجاتا ہے تو کیا باقی بچنے والے 210 روپے اس کے لیے کافی
ہونگے۔ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> اگر اسے بچوںکی سکول فیس جمع کرانی ہو نئی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کے لیے کاپیاں ، پنسیلیں یا امدادی
کتب خریدنی ہوں یا
سردیوں میں معصوم ٹھٹھرتے جسموں کے لیے گرم کپڑے ،سویٹریا جرسی خریدنی ہو تو کیا یہ رقم انکی ان ضروریات
کو پورا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر اتنی ہی دیہاڑی لینے والے مزدور اگر
روزانہ 210 روپے بچا کر اپنے چار بچوں کے
لیے کسی اچھے سٹور کے بجائے لنڈا بازار سےفی
کس ایک سویٹر ایک گرم ٹوپی، جرابیں اور
جوتے خریدنے ہوں تو وہ یہ ٹارگٹ کتنے دنوں
میں پورا کرے گا۔ فرض کریں اسکےتین میں سے دو بچے سکول جاتے ہیں انکے پاس ہونے پر
انہیں فی کس آٹھ کاپیاں اور اتنی ہی امدادی کتب، کلر پنسل، پن اور ڈرائنگ بک لینی
پڑے تو یہ سامان خریدنے کے لیے اسے کتنے دن درکار ہوں گے۔ بشرط کہ اس دوران اسکے
کام کا ناغہ نہ ہو، اس کے ہاں نہ کوئی مہمان آئے نہ کوئی بیمار ہو نہ اسے کہیں ایمرجنسی سفر کرنا پڑے نہ
اسے بچوں کی فرمائش
پر گوشت پھل یا مٹھائی لانی پڑے۔ ان
سوالات کے ممکنہ جوابات تمام قارئین لیے
دعوت فکر ہیں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">" پبلک پالیسی انسٹی ٹیوٹ آف
پاکستان" کی حالیہ رپورٹ کے مطابق8-2007 سے
پاکستان میں مہنگائی سالانہ 10 سے
13 فیصدحساب سے بڑھ رہی ہے۔مثلاً 2008
سے 2014 تک آلو کی قیمت میں 258فیصد، دال </span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span>3</span></b><span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span>9فیصد،
آٹا58فیصد، دہی</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اور دودھ کی قیمت
میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔ یہی حال دیگر اشیاء ضروریہ کا ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ایک عیال دار عام آدمی کی مشکلات
کا اندازہ لگانے کے لئے ہم اسکی آمدن اور اخراجات کا تخمینہ لگاتے ہیں۔مثلاًاگرپانچ
افراد یعنی میاں بیوی اور دو سے بارہ سال کی عمر تک کے 3بچوں پر مشتمل خاندان کےتین وقت کے کھانے سمیت
ایک دن کے خرچ کا بجٹ بنایا جائے تو اعداد
و شمار کچھ یوں بنتے ہیں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">آٹا،سبزی،گھی،دیگر مصالحہ جات
وغیرہ 200روپے<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">دودھ (ڈیڑھ کلو) 105 روپے (70 روپے فی کلو کے حساب سے)<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">چینی اور چائے 30 روپے (اوسطاً)<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ٹرانسپورٹیشن چارجز
(کرایہ،پیٹرول) 40 روپے (اوسطاً)<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">موبائل بیلنس
30 روپے
(
اوسطاً)<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">بچوں کا جیب خرچ 20
روپے (سکول جانے والے دو
بچوں کے لئے)<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ٹوٹل چار سو پچیس روپے بنتے ہیں۔ جبکہ
مہینے کے بارہ ہزار سات سو پچاس روپے بنتے ہیں۔ ماہانہ بل شامل کریں تو درج ذیل
مجموعہ بنتا ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">بجلی کا بل 700
روپے<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">گیس کا بل 400 روپے
(اگر لکڑی کا چولہا ہو تو خرچہ چار گنا بڑھ جاتا ہے)<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">صابن (نہانے والا) 140 روپے
(مہینے بھر کے لئے)<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">صابن ( برتن دھونے والا) 40 روپے (مہینے بھر کے لئے)<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">سرف 300 روپے (مہینے بھر کے لئے)<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کل پندرہ سو اسی روپے</span></b><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span> کل ماہانہ خرچ
</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span>12750+1580=14330
</span></b><span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span> </span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span> </span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اگر یہ خاندان کرایہ دار ہو تو
ماہانہ کرایہ تقریباً 3000 روپے<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ٹوٹل
</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span>14330+3000=17330 </span></b><span dir="RTL"></span><b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span> </span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span> <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اس تخمینے میں اشیاء کے نرخ
انتہائی کم رکھے گئے ہیں۔ سستے بازاروں یا
عام بازاروں میں ممکنہ طور پر دستیاب سستی
سے سستی اشیاء یا دوسرے درجے کی اشیاء کی
قیمتیں شمار کی گئی ہیں۔قارئین کو اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کیونکہ اصل اخراجات اس
سے کہیں بڑھ کر ہیں تاہم یہ صرف تخمینہ ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ قارئین اچھی
طرح سمجھ لیں کہ اتنی کم قیمتوں اور اپنی کم سے کم ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا
گیا بجٹ بھی دیہاڑی دار مزدور اور نوکری
پیشہ غریب آدمی کی ماہانہ آمدن سے30 فیصد زیادہ ہے۔ ابھی اس تخمینے میں گوشت،پھل ،مٹھائی، دوائی، نئے کپڑے، جوتے ، خوشی و غمی،سفر، بیماری،بچوں کی تعلیم ،اپنے بچوں اور قریبی عزیزوں کی شادی وغیرہ میں ہونے
والے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ظاہر ہے جب کوئی ماہانہ بچت کا امکان ہی نہیں تو یہ
کام کیسے ہوں گے۔ اگر یہ کام بھی ساتھ چلتے رہیں تو انسان کو اپنی دیگر ضروریات کا
گلا گھونٹنا پڑے گا اسکے بعد پیدا ہونے
والے حالات کی سنگینی کا اندازہ درد دل
رکھنے والے لوگ آسانی سے لگا سکتے ہیں۔ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کم آمدن، ناقص خوراک، روزگار اور صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، قرض اور کرایے کی
پریشانی،شادی کی منتظر بچیوں کی بڑھتی عمراورحکومتی بے توجہی۔ ایسے حا لات میں لوگ مریض
بنتے ہیں یا مجرم۔ صحت مند معاشرے
کی تشکیل کے لئے جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرپشن،رشوت
ستانی، اقربا پروری،انصاف کی عدم فراہمی،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اس بات کی غماز ہے کہ سسٹم چند ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے۔ چوری، ڈکیتی،خود کشی جیسے رجحانات اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ
عنان حکومت نا اہل ، اخلاص سے عاری اور غیر
سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے ورنہ آسمان
گواہ ہے کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفۃ
المسلیمین بنے تو دنیا نے وہ وقت بھی دیکھا جب یمن سے سے کر بلوچستان تک کوئی زکٰوۃ لینے والاڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا تھا لوگ زکٰوۃ لے کر پھرتے تھے مگر
ہر جگہ سے یہ جواب ملتا کہ میں حق دار نہیں ہوں۔ یاد رہے آپ نے صرف اڑھائی سال
حکومت کی۔اتنے مختصر عرصے میں ایسا صرف اس لئے ممکن ہوا کہ وہ جانتے تھے کہ اس
اقتدار اور اختیار سے متعلق آخرت میں اللہ کے حضور جواب دہ ہونے پڑے گا۔ </span></b><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-72542232129192544252014-12-20T13:24:00.001+05:002014-12-20T13:32:49.918+05:00آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید بچوں کے نام ۔۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">یہ کون ظالم ہے۔۔۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> جو گُلوں کو مسل گیا ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">یہ کون خودغرض آدمی ہے،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> جو خوشبووُں کو جکڑ گیا ہے۔۔<o:p></o:p></span></b><br />
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">شفق کی لالی اداس بے دم،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہیں بلبلیں بھی نڈھال و پرنم،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کہ جس سے شاخیں جھلس گئی ہیں ،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">لگا کے ایسی نظر گیا ہے۔۔<o:p></o:p></span></b><br />
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نہ سوندھی سوندھی زمیں کی خوشبو،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نہ اجلا اجلا چمن کا سبزہ،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہر ایک غنچہ لہو لہو ہے،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">یہ کیسے بادل برس گیا ہے۔۔۔<o:p></o:p></span></b><br />
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نہ ہی کلیوں کے شوخ رنگ ہیں،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نہ پرندوں کا چہچہانہ،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">آج غارت گروں کے ڈر ،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">سارا گلشن سہم گیا ہے۔۔۔<o:p></o:p></span></b><br />
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نہ ہی شبنم فضا سے اتری،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نہ ہوا اپنے گھر سے نکلی،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نہ ہی سورج کی کرن چمکی،<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نہ کلی کوئی آج چٹخی،</span></b><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">آج تم جو نہ مسکرائے، <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نظام قدرت بھی تھم گیا ہے۔۔۔<o:p></o:p></span></b></div>
<br />
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-88792320618660081522014-12-16T11:39:00.004+05:002014-12-16T11:53:12.009+05:00کھیل میں حکومتوں کی مداخلت اور قومی ہاکی ٹیم کا قصہ۔۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> کھیل کسی قوم کی تہذیب اور ثقافت کا
لازمی جز ہوتے ہیں ۔ جدید دنیا میں کھلاڑی اپنے ملک اور قوم کا چہرہ سمجھے جاتے ہیں۔ اسی لیے اپنی تہذیب
ثقافت اور سوفٹ امیج کے اظہار کے لیے ہر
ملک اپنی قومی علامات کا تعین کرتا ہے مثلاً قومی کھیل ، قومی پرندہ قومی پھل
پھول اور پکوان وغیرہ۔ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے۔ پاکستان چار بار ورلڈ
چمپیئن رہ چکا ہے۔ اسکے علاوہ قومی ٹیم بے شمار میڈلز</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ٹرافیاں اور نقد
انعامات جیت چکی ہے۔پچھلے کئی سال سے قومی
ہاکی ٹیم زوال کر شکار ہے۔اسکی وجوہات کی تفصیل انشا اللہ پھر کسی نشست میں بیان کروں گا۔فی
الحال میرا موضوع قومی ہاکی ٹیم کا دورہ ہندوستان ہے۔ جہاں ٹیم نے چمپیئنز
ٹرافی میں شرکت کی۔قومی ہاکی ٹیم نامساعد
حالات اور حکومتی بے توجہی کے باوجود انڈیا میں منعقدہ چمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں
پہنچ گئی۔ مقابلہ تو دل نا تواں نے خوب کرنا تھا مگر انڈیا کی روایتی دشمنی اور ایف
آئی ایچ کاجانبدارانہ روّیہ آڑے آ گیا۔</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span> جس کے باعث ہماری پوری ٹیم کو "لائن
حاضر" ہونا پڑا۔</span></b><br />
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<span dir="RTL"></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">قصہ کچھ یوں ہے کہ سیمی فائنل میں انڈیا کا جوڑ پاکستان کے ساتھ پڑا انہیں ہوم گراونڈ کا فائدہ ہونے کے ساتھ کراوڈ کی بھر پورحمایت حاصل تھی ہندوستانی ٹیم جس اعتماد سے میدان میں اتری اسی اعتماد سے
کھیلی بھی۔ مگر روایتی حریف سے مقابلے میں پاکستانی شاہینوں کی پرواز بھی دیکھنے
کے قابل ہوتی ہے۔ کھیل کے آخری لمحات تھے
مقابلہ تین تین گول سے برابر تھا دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں کھیل ختم
ہونے سے دو منٹ قبل پاکستانی ٹیم نے چوتھا گول کر کے جیت کا رخ اپنی جانب موڑ لیا۔ مقررہ وقت ختم ہوا تو پاکستانی ٹیم نے جیت کا جشن
منایا گو کہ کچھ کھلاڑی زیادہ جذباتی ہو گئے تھے مگر انہوں نےکوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی۔انڈین ٹیم ، انڈین
ہاکی فیڈریشن اور میڈیا سے پاکستانی جیت اور پھر جشن ہضم نہ ہوا۔ اسپورٹس مین
اسپرٹ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انہوں نے انٹر نیشنل ہاکی فیڈریشن (ایف آئی ایچ) سے
اس کی شکایت کر دی جس کا جائزہ لے کر
انڈیا کا اعتراض مسترد کردیاگیا ۔ مگر انڈین مینجمنٹ اور میڈیا نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے
ہوئے آئی ایچ ایف کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا جس کے نتیجے میں دو
اہم پاکستانی کھلاڑی فائنل میچ کھیلنے سے محروم کر دیے گئے۔ جس کا باقی ٹیم پر برا
اثر پڑا۔ اس ظالمانہ فیصلے سے کھلاڑیوں کا مورال ڈاون ہوا اور انجانے خوف نے انکی کارکردگی کو زنجیر ڈال
کر محدود کر دیا۔ جس کا نتیجہ قومی ٹیم کی جرمنی سے ہار کی صورت میں نکلا۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے قبل
بھی اس طرح کے فیصلے ہو چکے ہیں۔ افسوس کہ کھیل میں سیاسی دخل اندازی نےاس کا حسن
بگاڑ دیا ہے۔ 2011 کے ورلڈ کپ سے قبل سلمان بٹ، آصف اور عامر کو فکسنگ اسکینڈل میں
ٹریپ کرنے اور پابندی لگوانے کے پیچھے بھی
انڈین مائنڈ سیٹ کام کر رہا تھا۔ یہ تین کھلاڑی جیسا پرفارم کر رہے تھے اگر یہ
ورلڈکپ میں قومی ٹیم کا حصہ ہوتے تو پاکستان یقیناً ورلڈ چمپیئن ہوتا۔ اسکے علاوہ ورلڈ کپ کے
دوران ایمپائرز کے کئی جانبدار فیصلے پاکستانی ٹیم کی راہ میں مزاہم ہوئے۔
سیمی فائنل میں 13 کے انفرادی اسکور پر ٹنڈولکر واضح ایل بی
ڈبلیوآوٹ ہوئے مگر ڈی آر ایس سسٹم رزلٹ کو
کمپیوٹر کی مدد سے تبدیل کیا گیا اورمڈ وکٹ کے جانب جاتی لائن کو ہاک آئی </span></b><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">HAWK EYE) </span></b><span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span>)</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span>
</span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نےبڑے بھونڈے انداز میں آخری وقت میں لیگ اسٹمپ کی جانب موڑ دیا اور ٹنڈولکر ناٹ آوٹ قرار پائے اور 83 رنز کی انگز
کھیل کر ہندوستان کو بڑا مجموعہ بنانے میں
مدد دی۔ کرکٹ کے کرتا دھرتا جو کرنا چاہتے تھے کر چکے تھےمگر دنیا بھر نے جو
دیکھنا تھا دیکھ لیا۔ اس پر نہ صرف ساری دنیا میں خاص کر انڈیا میں کئی تجزیہ
نگاروں نے سوال اٹھائے اور اپنی تحریروں اور ٹنڈولکر کے آوٹ ہونے کی تصاویر کے
ساتھ پوری دنیا پر ہندوستان کی حقیقت کھول دی۔ اس سارے عمل میں آئی سی سی نے انڈیا
کی لونڈی کا کردار ادا کیر کے خود کو متنازعہ بنا لیا۔ اگر ٹنڈولکر کو آوٹ قرار دے
دیا جاتا تو وہ میچ پاکستان کے لیے آسان ہو جاتا۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> اب 2015 کا ورلڈکپ قریب ہے تو انڈیا اور اسکے
اتحادی پاکستان مخالف لابی نے سعید اجمل
اور حفیظ کے باولنگ ایکشن پر اعتراض کر دیا ہے جس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ
نادیدہ طاقتیں پاکستان کے عالمی کردار کو دھندلانے اور اور دنیا میں اسے ناکام
ریاست ثابت کرنے کے لیے ہر حربہ آزما سکتی ہیں چاہے وہ کھیل کا میدان ہی کیوں نہ
ہو۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> غیروں
کا کیا گلہ کریں یہاں اپنی حکومت نے قومی
کھیل کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ یورپ کے کئی دورے محض وسائل کی عدم دستیابی
کے باعث ملتوی کرنا پڑے۔ اس مر تبہ بھی چمپیئن ٹرافی میں شرکت کے لیے جیوسوپر پر
اپیل کرنا پڑی کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک
طرف ہاکی قومی کھیل ہے اور دوسری طرف اس
کے ساتھ ایسا روّیہ۔ قومی ہاکی ٹیم کے کپتان عمران خان کا شکوہ بجا ہے کہ ہم ےیتیموں
کی طرح انڈیا کھیلنے گئے۔ اگر ندیم عمر
اور ملک ریاض جیسے لوگ آگے نہ آتے تو قومی ٹیم
انڈیا نہ جا سکتی۔ بہر حال قومی ٹیم نے سولہ سال بعد چاندی کا تمغہ جیت کر
ناقدین کے منہ بند کر دیئے۔ حیرت ہے کہ
چار ورلڈ کپ جیتنے والی قومی ہاکی ٹیم سے حکومت کا امتیازی روّیہ اور دوسری جانب کرکٹ ٹیم کے لیے انعامات اور
نوکریوں کے مواقع ۔ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">یہاں موقع تو نہیں مگر بات کہے
بغیر کوئی چارہ نہیں۔ قومی بلائنڈ کرکٹ
ٹیم کے ریکارڈ یافتہ کھلاڑی جنہوں نے 262 رنز کا سب سے بڑا انفرادی سکور بنانے کا
ریکارڈ بنا یا۔ انہیں حکومت نے دس ہزار وپے دینے کا اعلان کر کے اس صدی کا سنگین
ترین مذاق کیا۔ اس کے علاوہ ورلڈ سنوکر چمپیئن محمد آصف کوجو انعامات دینے کا اعلان ہوا تھا وہ آج تک
پورا نہیں ہوا۔ اگر حکومت اور متعلقہ حکام کا یہی روّیہ رہا تو پھر کھلاڑی کیسے اور کس کے لیے کھیلیں گے۔۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><br /></span></b></div>
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">غالب نہ کر حضور میں تو بار
بار عرض،<o:p></o:p></span></b></div>
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ظاہر ہے تیرا
حال سب ان پر کہے بغیر۔۔<o:p></o:p></span></b></div>
</div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-77335288122714552732014-12-13T12:46:00.000+05:002014-12-13T12:46:42.726+05:00سوشل میڈیا پر بڑھتاہواایک خطرناک رجحان۔۔۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> آج کے دور میں انٹرنیٹ کی اہمیت سے انکار
نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں اداروں اور شخصیات کے ذاتی و کاروب</span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">روابط میں بہتری اور تیزی آئی
ہے</span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">وہیں
تعلیمی اور تحقیقی مواد تک بہ سہولت رسائی نے اسکی اہمیت تمام طبقات میں یکسر بڑھا
دی ہے۔ آج</span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> کل سوشل </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ویب سائٹس</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کا استعمال بڑھ گیا
ہے اسے عرف عام میں سوشل میڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ لوگ یہاں نت نئی شخصیات اور رجحانات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں
اسکے علاوہ لوگوں کو اپنی پسند اور دلچسپی سے متعلق ویڈیوزاور تصاویر
کو اپلوڈ کرنے سے لے کر ان پر تبصرہ اور </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">شیئر</span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">
کرنے تک کی آزادی میسر ہے۔ ایسی ویب سائٹس
میں فیس بک سب سے معروف ویب سا ئٹ کے طور پر سر فہرست ہے۔ اسکے فوائد اپنی جگہ مگر ایک خطر ناک عادت میں بھی
اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ وہ ہے دوسروں کے
مذہب، عقائد اور سیاسی اور سماجی رجحانات
پر تنقید۔ جدیددنیا خصوصاً ادب میں تنقیدچیزوں
کی بہتری میں مددگار ہے۔مگریہاں تنقید کا طریقہ کار انتہائی نا پسندیدہ ہے۔</span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span> آقا مدنی کریم ﷺ کے فرمان عا لیشان کا
مفہوم ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا جب لوگ اپنے ماں باپ کو گالیاں دیں گےصحابہ کرام
نے دریافت فرمایا کہ آقا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالیاں دے سکتا ہے؟ رحمت
اللعالمین ﷺ نے فرمایا جو دوسروں کے ماں باپ کو براکہے گا جواب میں اس کے
ماں باپ کو برا بھلا کہا جائے گا۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کسی کے بڑوں
یا پیاروں کو برا کہا جائے تو جواب میں تمہارے بڑوں کو بھی برا کہا جائے گا۔ دوسرے
چاہےحقیقتاً برے ہی کیوں نہ ہوں اگر کوئی
انہیں برا کہے گا یا گالی دے گا تو جواب میں تمہارے اچھے لوگوں کو وہی کچھ کہا
جائے گا۔اس حوالے سے درد دل رکھنےوالے لوگوں کا موقف ہے کہ اس عمل سے پرہیز کیا
جائے اور ایسا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ یہ چیز آزادی اظہار رائے کے ضمرے میں
نہیں آتی بلکہ قابل تعزیز جرم ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ جو ہمارے بڑوں کا
احترام نہیں کرتا اور ہمارے چھوٹوں پہ شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ کیا ہم
محض اپنی حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے آقا مدنی کریم ﷺسے تعلق توڑ سکتے ہیں۔ دوسروں کے بڑوں کو برا کہہ کر اپنے بڑوں پر لعن
طعن کرنے کا موقع فراہم کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ اہل علم لوگوں اور صاحب نظر
بزرگوں کا کہنا ہے کہ علماء کرام کا گستاخ ایمان پر نہیں مرتا۔ احتیاط اس قدر ہے
کہ کسی عالم دین کے جوتے کو جان بوجھ کر
ٹھوکر مارنا بھی گستاخی ہے۔ مختلف مکاتب فکر کا آپس میں اختلاف اپنی جگہ مگر فیس بک
پر ایک دوسرے کی محترم شخصیات پر کیچڑ اچھالنے والے لوگوں سے التماس ہے کہ اس طرح
کی سرگرمیوں سے پرہیز کریں۔ نجانے کون سا بندہ گنہگار ہے اور کون اپنے مالک کے کتنا قریب ہے ہم کیا جانیں۔ اس لیے
احتیاط لازم ہے۔ جس نے جیسے اعمال کیے ہوگے ویساصلہ پائے گا۔ مگر ہماری
احتیاط آخرت میں ہمیں ضرور فائدہ پہنچائے
گی اور دنیا میں بھی ہم ان چیزوں سے بچے رہیں گے جو فتنہ و فساد کا باعث
بن رہی ہیں۔</span></b><b><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span> اگر آپ
چاہتے ہیں کہ آپکی محترم شخصیات سے متعلق کوئی غلط بات نہ کرے ان کی تصوریں نہ
بگاڑیں ان کےالٹے سیدھے نام نہ رکھیں تو
اس سلسلے میں آپ کو بھی احتیاط برتنا ہوگی۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو ہمیں جواب دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس طرح کے
معاملات پر قانونی نافذ کرنے والے اور پی ٹی سی ایل جیسے
متعلقہ اداروں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔پاکستان میں مختلف مذاہب اور مسالک
اور قوم قبیلوں کے لوگ رہتے ہیں۔ دہشت گردی کے پیش نظر ملک کی موجودہ صورتحال کو
سامنے رکھتے ہوئے ہمیں صبر کا دامن تھام
کر اپنی سی ایک کوشش کر نی چاہیے اورجس کے صلہ ہم خدا سے ضرور پائیں گے۔</span></b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></div>
<br />
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-64100463932499612772014-12-09T16:56:00.000+05:002014-12-09T17:03:03.383+05:00دو چہرہ لوگ۔۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 115%;"> انسانی تاریخ میں منافقت ایک
ایسا روّیہ </span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 115%;">ہے جوکبھی کسی جماعت' ادا رے یا شخصیت کی پالیسی یا ادارہ جاتی قانون کا باقاعدہ حصّہ نہیں بنا۔
مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکا غیر
اعلانیہ استعمال بڑھتا رہا۔ دور نبویﷺ میں
اس روّیے کے حاملین کو منا فقین کہا گیا۔ مگر دور حاضر میں یار لوگوں نے اس کے
معنی و مفہوم ہی بدل دیے اب جب دل چاہے جس کو چاہے منافق کہہ
دیا جاتا ہے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 115%;"> میرے محترم </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">سید انورمحمود<span style="color: red;"> </span>نےمیرے
مضمون "سید منور حسن کا بیان اور لبرل مکتب فکر کا رد عمل" کے جواب میں
اپنا مضمون ارسال فرمایا میں انکا ممنون
ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے نو آموز لکھاری کے مضمون کو قابل توجہ جانا اور اسکے
جواب میں اپنا مضمون بھیجا۔ اس مضمون میں
جہاں انہوں نے کچھ سچی باتیں کی وہاں حقائق
سے نظریں چراتے ہوئے مذہبی طبقے کو با
العموم اور طالبان سمیت سید منور حسن کو بالخصوص نشانہ بنایا۔ لگے ہاتھ
انہوں نے مجھے بھی منافق قرار دے دیا۔ ان کا مضمون اندھی مخالفت اور حقائق سے چشم
پوشی کا غماز ہے۔ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> شاہ
صاحب پڑھے لکھے آدمی ہیں یقیناً منافقت کےمطلب
ومفہوم سے بخوبی آگاہ ہونگے۔ پھر اس کے استعمال میں اس قدر بے احتیاتی
کیوں؟ میری ناقص معلومات کے مطابق منافق وہ انسان ہوتا ہےجو دل میں سوچتاکچھ اور ہے مگرجب بات کرتا ہے تو محفل یا سامع کے موڈ کے موافق ۔یعنی
اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔ میرا جماعت اسلامی اور منور حسن سے کوئی کا تعلق
نہیں ہے۔ نہ میرا مضمون ان کے بیان کے دفاع یا مخالفت میں تھا۔ میں نے بس ان کے بیان کو بنیاد بنا کر وہ باتیں
کہہ دیں جن سےآج تک ہم چشم پوشی کرتے رہے ہیں۔ مثلاً میں قادری صاحب اور عمران خان کی انقلاب و آزادی مارچ اور
دھرنےوالی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتا مگر ان کے بیشتر مطالبات کی حمایت کرتا
ہوں کہ حکومت ان پر غور کرےمیری اس سوچ
کے حوالے سے اگر کوئی میری اس بات پر
اعتراض کرے اور مجھے منافق کہے تو عجیب
بات ہے۔ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">
میرا مقصد ہمارے معاشرے اور نظام میں موجود ان خرابیوں
کا ذکر کرنا تھا جو ناسور بن کر ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں۔ ساتھ
ساتھ میں نے ان نام نہاد لبرل لوگوں کے
سامنے یہ سوال اٹھایا کہ جب نظام حکومت ہم ہی جیسے لوگوں کے پاس ہے تو اس کی
خرابیوں کے ذمہ دار بھی ہم ہی لوگ ہیں نہ کہ کوئی اور۔ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> پہلی
بات تو یہ کہ مقامی طالبان جو پاکستان میں
دہشتگری میں ملوث ہیں انہیں طالبان نہیں کہنا چاہئے۔ دہشتگرد کہیں یا ظالمان کہیں
خواہ کچھ اور۔کیونکہ اس سے افغان طالبان پر بھی حرف آتا ہے ملا عمر پہلے ہی ان
پاکستانی دہشتگردوں سے تعلق کی تردید کر
چکے ہیں جو پاکستانی کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آج تک
افغان طالبان نے کوئی سرحدی خلاف ورزی نہیں کی نہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو کوئی
نقصان پہنچایانہ پاکستان مخالف سرگرمیوں کی حمایت کی۔ روس افغان جنگ صرف افغانستان
کی نہیں بلکہ پاکستان کی بھی حفاظت اور بقا کی جنگ تھی۔ مگر ہمارا دہرا
معیار دیکھیں کہ اگر افغان مجاہد اور
القائدہ روس سے لڑیں تو مجاہد اور امریکہ کے خلاف لڑیں تو دہشتگرد۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">
جس جہاد کشمیر کا آغاز قائداعظم کے حکم پر قبائلیوں نے کشمیریوں کے ساتھ مل
کر کیا تھا جس کے نتیجے میں موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا۔ آج وہی جہاد بھی ماڈرن
ڈکشنری میں دہشت گردی بن چکا ہے۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔؟ شیخ مجیب الیکشن
جیتے مگر بھٹو صاحب نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا دیا۔ اس عمل کو کیا کہا جائے گا۔؟ ہم بنگالیوں کا رونا روتے ہیں یہاں اپنے گھر میں
کیا ہوا کون نہیں جانتا کہ محترمہ فاطمہ
جناح کو الیکشن میں دھاندلی سے ہرایا اور انکی موت آج تک مشکوک ہے۔ مگر ہم کس
منفقانہ شان سے ان کی محبت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> ایمل کانسی کو پکڑنے کے لیے امریکی فوجی طیارہ
پاکستانی قانون اور اداروں سے بالا تر ہو کر ڈیرہ غازی خان اترتا ہے اور اسے گرفتار
کرکے لے جاتے ہیں مگر ریمنڈ ڈیوس کو اسی قانون کے تحت رہائی دے دی جاتی ہے۔ جاسوسی
کا الزام ثابت ہونے کے باوجود ایوان ریڈلی طالبان کی قید سے باعزت و عصمت رہا کر
دی جاتی ہے مگر کسی لبرل لکھاریوں کو آج تک اس عمل کی تعریف لکھنے کی توفیق نہیں
ہوئی۔ اور دوسری طرف بے قصور عافیہ کو خود ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے مگر اس کا
دکھڑا بھی کبھی کسی نام نہاد لبرل کے نوک قلم سے نہ لکھا جا سکا۔ یہ
کیا منافقت کی حد نہیں ہے۔؟<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> مولانا صوفی محمدنفاذ شریعت کا
مطالبہ کریں تو جیل بھیجا جاتا ہےاور لا ل
مسجد والےیہی مطالبہ کریں تو آپریشن اور
عمران خان تین ماہ سے اسلام آباد بلاک کر کے بیٹھا ہےسرکاری
عمارات اور املاک کا حشر نشر کیا جاتا ہے۔ اس دھرنے سے اسلام آباد کے باسیوں کی روزمرہ سرگرمیاں متاثر
ہویں وہیں حکومتی معاملات اور اہم ممالک
سے آنے والے حکومتی اورکاروباری وفود کے
دورے بھی موخر ہوئے۔ مگر اس سے مذاکرات۔
کیا یہ واضح تضادنہیں ہے ؟
<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> جس جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان
میں پاک فوج کے ساتھ دیا اوروفاق پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ داو پے لگا دیا۔ آج اس کے رہنماوں
کو دھڑا دھڑ پھانسیاں دی جا رہی ہیں مگر ہماری وزارت خارجہ اسے بنگلہ دیش کا داخلی
مسلہ قرار دے کے جان چھڑا لی حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہے
جس کے تحت 1971 کے واقعیات کی بنیاد پر کسی شخص پر کوئی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے نہ
سزا دی جا سکتی ہے۔ حکومت پاکستان اس معاہدے کو لے کر بنگلہ دیش حکومت سے بات کر
سکتی ہے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اسے آپ بے وفائی کہیں گے یا منافقت۔ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> آج ہم پورے پاکستان کو سوئی گیس تیل اور دیگر اہم معدنیات فراہم کرنے والے
بلوچستان اور بلوچوں کی حالت دیکھ لیں ۔ تو ہمیں اپنا وہ چہرہ نظر آئے گا جو ہم دیکھنا
نہیں چاہتے۔ کیا من حیث القوم ہمارا روّیہ منفاقانہ نہیں؟ میں
نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے بیشک وہ حکومتی
پالیسیوں اور فیصلوں سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس نظام کا حصہ ہونے کے ناتے اس نظام کو ووٹ دینے کے باعث ہم بھی اس میں
برابر کے شریک ہیں۔ اوروں کی طرف انگلی اٹھانے والوں کو اپنی جانب مڑی اپنی ہی چار
انگلیاں نظر انداز نہیں کرنی چاہیے۔۔<o:p></o:p></span></b></div>
<br />
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-24099831363255462982014-11-28T17:06:00.004+05:002014-12-01T11:31:10.484+05:00سیدمنورحسن کابیان اور لبرل "مکتب فکر" کاردعمل۔۔۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"> لاہور میں منعقدہ جماعت اسلامی کےعا لمی اجتماع
سے خطاب کرتے ہوئے سا بق امیر جماعت اسلا می سید منور حسن نے کہا ہے کہ ملک میں
جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کا کلچر عام ہو جائے تو یہ ملک مشکلات سے نکل سکتا ہے۔
اس بیان پر دوسری سیاسی جماعتوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ خصوصاً ایم کیو ایم اور
پی پی پی نے انکے بیان کو ملک میں خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ لڑائی کی کوشش قرار
دیا۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سید منور حسن کا بیان
قابل وضاحت ہے جیسا کہ مولانا طاہر اشرفی نے بھی کہاہے کہ اُ نہیں واضح کرنا چاہیے کہ یہ جہاد کس کے
خلاف ھوگا موجودہ سسٹم کے خلاف یا اس سسٹم میں موجود لوگوں کے خلاف۔ اس کی وضاحت
بہرحال آنی چاہیئے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">من حیث القوم ہمارا
رویہ ایسا ہو چکا ھے کہ ہم کسی کی بات سننا چاہتے ہیں نہ سمجھنا چاہتےہیں۔ با
الفرض اگر کسی بات کی وضاحت درکار ہے تو سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر اپنے
مفادات کی جنگ لڑنے والے سطحی سوچ کے حامل ھوتے ہیں۔ وہ صرف وہی سوچتے ہیں جس میں انکا مفاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب
سے ترجمان کا منصب اداروں کا لازمی جز ٹہرا تب سے لفظوں کا استعمال اور باتوں کے
مطلب بدل گئے ہیں۔ لچھےدار وضاحتیں، پہلودار گفتگو، بے جوڑ حقائق اور سفید جھوٹ پر
مبنی بیانات۔ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور پالیسیوں کے تسلسل کے لیے وہ راگ الاپا
جاتا ہے کہ آقا مدنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ حدیث یاد آ جاتی ہے جس کا
مفہوم ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ جب جھوٹ اتنا بولا جائے گا کہ سچ کا گمان ہونے
لگے گا۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">یہاں مسلہ صرف سید
منور حسن کے بیان کا نہیں اصل خرابی مختلف الخیال گروہوں کی اپنی اپنی موقف کے
حوالے سے انتہاپسندی ھے۔ مذ ہبی اور لبرل
انتہا پسند عموماً ایک دوسرے کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارا مزہب مسائل پیدا
نہیں کرتا بلکہ ان کا حل پیش کرتا ہے۔لیکن اگر</span></b><span dir="LTR"></span><b><span dir="LTR" lang="ER" style="font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span> </span></b><b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">دونوں طبقات کی بات سنی جائے تو انکے پاس اپنی فکر و عمل کے
حوالے سے وضاحتیں اور دلائل موجود ہیں جو ایک دوسرے کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے
ہیں مگر دوسرے لوگوں کے الزامات ماننے کو تیار نہیں۔ پھر یہ فیصلہ کیسے ھوگا کہ
کون کس کام کا زمہ دار ہے۔؟<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">مزہبی طبقہ ہمیشہ
تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو میڈیا پر بھر پورموقع بھی ملتا ہے
جبکہ مذہبی رہنماوں کو اپنے موقف کی وضاحت کرنے کاپورا موقع نہیں دیا جاتا۔ اگر
کسی پروگرام میں انہیں بلا لیا جائے تو صورتحال یہ ھوتی ھے کہ چار پانچ لبرلزمع
اینکر ایک مولوی کو گھیرے ھوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بحث کے نتیجے تک پہنچنا
مشکل ھوتا ہے چنانچہ عام آدمی ہمیشہ دیندار لوگوں سے متعلق میڈیائی پراپیگنڈے کا
شکار رہتا ھے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایک سوال میرے ذہن
میں ہمیشہ کلبلاتا رہتا ہے کہ کیا انتہا پسندی صرف مذہبی طبقے کے ساتھ مخصوص ھے یا
لبرلز بھی انتہا پسند ہوتے ہیں۔؟ اس سوال کے تناظر میں اگر لبرلز کی سوچ، حرکات و
سکنات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ ان باتوں کا جواب
تلاش کرنے سے قبل ہم جماعت اسلامی کے جماعتی ڈھانچے اور نظام کا جائزہ لیتے ہیں
تاکہ ہم آسانی سے اپنے سوال کا جواب تلاش کر سکیں۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">یہ بات بین الاقوامی
اور ملکی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ جماعت اسلامی ملک میں فوج کے بعد سب سے منظم
جماعت ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ قیادت اور کارکن اس جماعت کے پاس ہیں۔ امیر اور دیگر
عہدے داروں کا انتخاب شفاف ترین الیکشن کے بعد ہوتا ہے جماعت موروثی سیاست کے خلاف
ہے اور آج تک کسی امیر نے اپنے بچے کو امیر منتخب کرنے یا کرانے کی کوشش نہیں کی۔
جماعت اسلامی کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ تمام دیگر قابل زکر سیاسی جماعتوں کو کئی
اہم سیاست دان جماعت کے فراہم کردہ ہیں یعنی وہ لوگ جو جماعت کو چھوڑ کردوسری جما
عتوں میں گئے ہیں وہ اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر آج اہم زمہ دارعہدوں پر
کام کر رہے ہیں۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ وہ لوگ جماعت کو کیوں چھوڑ گئے۔ سب سے اہم اور قابل زکر بات یہ ہے کہ جماعت کے
کسی رکن اسمبلی پر آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔ یہاں سے ہمارے مطلوبہ جواب
کا آغاز ہوتا پے۔<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کہ اتنی خوبیوں کے
باوجود آج تک جما عت اسلامی کسی بھی الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے حکومت نہیں بنا
سکی۔ آخر کیوں۔؟ ہمارے ہاں ایک اچھا آدمی یا جماعت صلاحیت واہلیت کے با وجود الیکشن
کیوں نہیں جیت سکتی۔ یہ جماعت کی نہیں ہمارے معاشرےاور سسٹم کی ہار ہے۔ اگر ہم اس
نظام سے تنگ ہیں اور اسکی درستگی چاہتے ہیں تو پھر اس خرابی کے زمہ داروں کے تعین
اور ان سے گلو خلاصی کرانے میں کیا چیز ما نع ہے۔ منور حسن کے بیان پر تنقید کرنے
والوں کو اشتعال انگیز بیانات دینے کی بجائے ٹھنڈے دل سے اس نظام کی درستگی سے
متعلق سوچنا چاہیئے۔ اب جبکہ انکی وضاحت بھی سامنے آ گئی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے کلچر سے انکی مرادایک ایسا چلن اور جدو جہد
ہے جس کا مقصد اللہ کی رضا ہو۔ یعنی سیا ست ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی ہمارا
مقصود محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیئے۔ ایمانداری اور اخلاص سے ہی معاشرے اور
نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مگر اس عمل میں کیا چیز روکاوٹ ہے؟<o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کیا اقتدار کی غلام
گردشوں کے رسیا اور کرپٹ سیاست دان ،انکی ہمنوا اشرافیہ اور قوم کا خون چوستی
سرکاری نوکری یافتہ جونکیں قابل احتساب نہیں۔ اس ملک میں کرپشن، بے ایمانی، اقربہ
پروری، رشوت ستانی کے کلچر کو فروغ دینے والا کون ہے ۔ کیا ان خرابیوں کا باعث
مزہبی طبقہ ہے؟ اگر نہیں تو ہم ان سے نالاں کیوں رہتے ہیں اور ہر بار دین بیزار
لوگوں کو کیوں چن لیتے ہیں۔ اس ملک کے حالات کے زمہ داروں کا احتساب کون کرے گا ؟ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">یہ وہ سوال ہیں جو
سسٹم کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور نظام تب درست ہوگا جب اس نظام کو چلانے
والے لوگ بدلیں گے۔ افغان طالبان سے کئی باتوں پہ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن انکی
حکومت کے 7 سال مثالی تھے یہ بات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ طالبانی دور میں
امن، سکون، عزت، برکت تھی۔ نہ کوئی ظالم نہ کوئی مظلوم۔ جو حاکم تھے عوام کے خدمت
گزار تھے۔ <o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"> لبرل نظام جمہوریت کوداغ دار کرنے والے یہی لبرل
لوگ ہیں جو اس نظام کا سہارا لے کر اپنی خواہشات، اور ہوس کی تسکین میں مصروف ہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نظام کی درستگی کے لیے درست لوگوں کا انتخاب ضروری ہے۔ اپنے
زمہ امور کی بہتر انجام دہی تب ہی ممکن ہے جب نگرانی اور احتساب</span></b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"> کا <b>شفاف نظام قائم کیا جائے گا۔<o:p></o:p></b></span></div>
<br />
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سعودیہ اور افغانستان
میں اسلامی نظام کے نفاز کے خوشگوار اثرات اور نتائج دنیا نے دیکھے ہیں۔ اسلام سے بڑھ کر شفاف مکمل،
انسان دوست اور انصاف پر مبنی نظام کوئی
اور نہیں ھے۔ اور اب دنیا میں امیر ترین مسلم ریاست برونائی دارالسلام کے بادشاہ
سلطان حسن البلقیہ نے ملک میں شرعی سزاوں کے نفاز کا اعلان کر کے دنیا کو بتا دیا
ہے کہ عافیت اور بھلائی اسی نظام حیات میں ھے۔ پاکستان کا آئین اسلامی ہے صرف اس
کی اصل روح کے مطابق عمل ہو نا شروع ہو جائے تو نتائج حیران کن حد تک مختلف ہو
سکتے ہیں۔</span></b><span dir="LTR" style="font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-34440119839639595872014-11-20T17:05:00.002+05:002014-12-01T11:25:19.467+05:00تھر اور ہمارے اجتماعی احساس کی موت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"><br />
تھر سندھ کاموت اُگاتا صحرا<span class="apple-converted-space"> </span>اور<span class="apple-converted-space"> </span>وفاقی و صوبائی حکومتوں کی مشترکہ بے
حسی۔ خصوصاًحکومت سندھ کا غیر سنجیدہ<span class="apple-converted-space"> </span>رویہ
قابل مذمت ہی نہیں قابل گرفت بھی ہے۔ اگران کے بیانات پڑھے جا ئیں تو
شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کو اس معاملے سے کوئی دلچسپی ہی
نہیں ایسے لگتا ہےکہ تھر وفاق کی عملداری میں نہیں آتا۔</span></b><span dir="LTR" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<u1:p></u1:p>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span dir="RTL"></span><b><span lang="ER" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"><span dir="RTL"></span> حضور اکرم<span class="apple-converted-space"> </span></span></b><b><span lang="ER" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;">ﷺ</span></b><span class="apple-converted-space"><b><span lang="ER" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"> </span></b></span><b><span lang="ER" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"> صحابہ کرام<span class="apple-converted-space"> </span> اور<span class="apple-converted-space"> </span> اولیاء اللہ کے
معمولات زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات جا<span class="apple-converted-space"> </span>بہ جا<span class="apple-converted-space"> </span>پڑھنے کو ملے گی کہ جب بھی کوئی حاجت
مند آتو تو خالی واپس نہ جاتا تھا<span class="apple-converted-space"> </span>حتیٰ کہ کئی روزہ<span class="apple-converted-space"> </span> فاقے کے باوجود<span class="apple-converted-space"> </span>اپنا<span class="apple-converted-space"> </span>دسترخوان<span class="apple-converted-space"> </span>پہ موجود روکھا<span class="apple-converted-space"> </span>سوکھا کھانا بھی صدا دینے
والےکو بھجوا دیا جاتا۔ </span></b><b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span></span></b><b><span lang="ER" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"> مگر یہاں کئی برسوں سے بھوک جھیلتی<span class="apple-converted-space"> </span> مائیں اور انکے فاقہ زدہ رحموں
میں پلتی نئی زندگیاں جو ماوں کی کوکھ سے خوراک کشید کرنے کے حق سے
محروم کر دی گئی ہیں۔ زچگی جیسے پیچیدہ اور جان لیوا
عمل کے بعد خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی نے اس مبارک عمل کو ایسے
جرم میں بدل دیا ہے جس کی سزا فاقہ کشی اورکسمپرسی
کی موت ٹہری۔</span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<u1:p></u1:p>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="ER" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;">
دوسری طرف ارباب اختیار کے دمکتے چہروں، بھرے پیٹوں، پیسے سے لد پھد بنک اکا
ونٹس، آسودہ حال زندگی کی رنگا رنگی سے ظاہر ہے کہ وہ موت تو کیا خدا کو بھی
بھلا بیٹھے ہیں۔ موت کے شکنجے میں جکڑے اپنے
ووٹرز کی حا لت زار پر لفظی تعزیت کے سواء
کچھ نہ کر رہے۔<span class="apple-converted-space"> </span>دیگر سیاسی جماعتیں
پریس بریفنگ کے ہتھیار کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہی
ہیں۔</span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<u1:p></u1:p>
<div style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in;">
<span dir="LTR"></span><b><span style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"><span dir="LTR"></span>
<span dir="RTL" lang="ER">حکومتی ادروں کی سرگرمیاں محض خانہ پری ہے
ناقص غذا اور ادویات اوراس بڑھ کر اہلکاروں کا
توہین آمیز رویہ ۔رہی انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں تو انکی
پھرتیاں بس اس حد تک ہیں کہ فوٹو بن جائیں تاکہ
ڈونرز مطمئین رہیں۔ اگر تھر کے باسیوں کے لیے کسی کی کوششیں قابل ستا
ئش ہیں تو وہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی فلاحی تنظیمیں ہیں
جنھوں نے بلا تفریق مذہب شاندارکام کیا ہے ۔ وفاقی
اور صوبائی حکومتیں اگر ایمرجنسی نافذ کر کے مناسب اقدامات کرتیں
تو نتیجہ یقییناً مختلف ہوتا۔ مگر ابھی تک یہ حال
ہے کہ ادویات تو ایک طرف پانی اور کھانا ملنا بھی محا ل ہے۔</span></span></b><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in;">
<br /></div>
<div style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in;">
<b><span style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;">
<span dir="RTL" lang="ER">صرف تھر نہیں ملک میں موجود باقی ریگزاروں مثلاً چولستان
تھل اور بلوچستان کا صحرائی علاقہ کا حال بھی کچھ مختلف
نہیں ہے۔ ارباب اختیار سے درخواست ہے خدارااس صورتحال سے نمٹنے کے لیے
سنجیدہ</span><span dir="LTR"></span><span class="apple-converted-space"><span dir="LTR"></span> </span></span></b><span style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<span style="font-family: 'Segoe UI', sans-serif;"> </span><b><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Urdu Naskh Asiatype"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; mso-bidi-language: ER; mso-hansi-font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> اقدامات کیے
جائیں۔ <o:p></o:p></span></b></div>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-660863449999061617.post-85315716332633618712014-11-19T14:19:00.001+05:002014-12-09T12:13:26.922+05:00تعارف<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 dir="rtl" style="text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b><span style="color: blue;">میرا نام سید عاصم علی شاہ ہے۔ میرا تعلق مظفر
گڑھ سے ھے۔ مطالعہ کا شوق بچپن سے ہے۔ مذ ہب، تاریخ، ادب اور سیاست خاص دلچسپی کے مضامین ہیں۔
دوستوں کی تحریک پہ اپنا بلاگ بنایا ہے تاکہ وہ باتیں جو ہم سمجھتے ہیں کہ دوسروں
تک پہنچائی جانی چاہیئے وہ آسانی سے پہنچائی جا سکتی ہیں۔۔۔</span></b></span></h4>
</div>
نقش کہنhttp://www.blogger.com/profile/09293447193226733117noreply@blogger.com0