منگل، 9 دسمبر، 2014

دو چہرہ لوگ۔۔

0 comments

      انسانی تاریخ میں منافقت ایک ایسا روّیہ  ہے جوکبھی کسی جماعت' ادا رے   یا شخصیت کی  پالیسی یا ادارہ جاتی قانون کا باقاعدہ  حصّہ نہیں بنا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکا  غیر اعلانیہ استعمال بڑھتا  رہا۔ دور نبویﷺ میں اس روّیے کے حاملین کو منا فقین کہا گیا۔ مگر دور حاضر میں یار لوگوں نے اس کے معنی  و مفہوم  ہی بدل دیے اب جب دل چاہے جس کو چاہے منافق کہہ دیا جاتا ہے۔
    میرے  محترم سید               انورمحمود نےمیرے مضمون "سید منور حسن کا بیان اور لبرل مکتب فکر کا رد عمل" کے جواب میں اپنا مضمون ارسال فرمایا  میں انکا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے نو آموز لکھاری کے مضمون کو قابل توجہ جانا اور اسکے جواب میں اپنا مضمون بھیجا۔  اس مضمون میں جہاں  انہوں نے کچھ سچی باتیں کی وہاں حقائق سے نظریں چراتے  ہوئے مذہبی طبقے کو با العموم اور طالبان سمیت سید منور حسن کو بالخصوص نشانہ بنایا۔ لگے ہاتھ انہوں نے مجھے بھی منافق قرار دے دیا۔ ان کا مضمون اندھی مخالفت اور حقائق سے چشم پوشی کا غماز ہے۔         
    شاہ صاحب پڑھے لکھے آدمی ہیں یقیناً منافقت کےمطلب  ومفہوم سے بخوبی آگاہ ہونگے۔ پھر اس کے استعمال میں اس قدر بے احتیاتی کیوں؟ میری ناقص معلومات کے مطابق منافق وہ  انسان ہوتا ہےجو دل میں سوچتاکچھ اور ہے مگرجب  بات کرتا ہے تو محفل یا سامع کے موڈ کے موافق ۔یعنی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔ میرا جماعت اسلامی اور منور حسن سے کوئی کا تعلق نہیں ہے۔ نہ میرا مضمون ان کے بیان کے دفاع یا مخالفت میں تھا۔  میں نے بس ان کے بیان کو بنیاد بنا کر وہ باتیں کہہ دیں جن سےآج تک ہم چشم پوشی کرتے رہے ہیں۔ مثلاً میں قادری صاحب  اور عمران خان کی انقلاب و آزادی مارچ اور دھرنےوالی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتا مگر ان کے بیشتر مطالبات کی حمایت کرتا ہوں  کہ حکومت ان پر غور کرےمیری اس سوچ کے  حوالے سے اگر کوئی میری اس بات پر اعتراض کرے اور مجھے منافق کہے تو    عجیب بات ہے۔
  میرا مقصد ہمارے معاشرے اور نظام میں موجود  ان خرابیوں  کا ذکر کرنا تھا جو ناسور بن کر ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ میں نے ان نام نہاد  لبرل لوگوں کے سامنے یہ سوال اٹھایا کہ جب نظام حکومت ہم ہی جیسے لوگوں کے پاس ہے تو اس کی خرابیوں کے ذمہ دار بھی ہم ہی لوگ ہیں نہ کہ کوئی اور۔    
  پہلی بات تو یہ کہ مقامی  طالبان جو پاکستان میں دہشتگری میں ملوث ہیں انہیں طالبان نہیں کہنا چاہئے۔ دہشتگرد کہیں یا ظالمان کہیں خواہ کچھ اور۔کیونکہ اس سے افغان طالبان پر بھی حرف آتا ہے ملا عمر پہلے ہی ان پاکستانی دہشتگردوں  سے تعلق کی تردید کر چکے ہیں جو پاکستانی کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آج تک افغان طالبان نے کوئی سرحدی خلاف ورزی نہیں کی نہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو کوئی نقصان پہنچایانہ پاکستان مخالف سرگرمیوں کی حمایت کی۔ روس افغان جنگ صرف  افغانستان  کی نہیں بلکہ پاکستان کی بھی حفاظت اور بقا کی جنگ تھی۔ مگر ہمارا دہرا معیار دیکھیں  کہ اگر افغان مجاہد اور القائدہ روس سے لڑیں تو مجاہد اور امریکہ کے خلاف لڑیں تو دہشتگرد۔
  جس جہاد کشمیر کا آغاز قائداعظم کے حکم پر قبائلیوں نے کشمیریوں کے ساتھ مل کر کیا تھا جس کے نتیجے میں موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا۔ آج وہی جہاد بھی ماڈرن ڈکشنری میں دہشت گردی بن چکا ہے۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔؟ شیخ مجیب الیکشن جیتے مگر بھٹو صاحب نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا دیا۔  اس عمل کو کیا کہا جائے گا۔؟  ہم بنگالیوں کا رونا روتے ہیں یہاں اپنے گھر میں کیا ہوا  کون نہیں جانتا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں دھاندلی سے ہرایا اور انکی موت آج تک مشکوک ہے۔ مگر ہم کس منفقانہ شان سے ان کی محبت  کا ڈھنڈورا  پیٹتے ہیں۔
 ایمل کانسی کو پکڑنے کے لیے امریکی فوجی طیارہ پاکستانی قانون اور اداروں سے بالا تر ہو کر ڈیرہ غازی خان اترتا ہے اور اسے گرفتار کرکے لے جاتے ہیں مگر ریمنڈ ڈیوس کو اسی قانون کے تحت رہائی دے دی جاتی ہے۔ جاسوسی کا الزام ثابت ہونے کے باوجود ایوان ریڈلی طالبان کی قید سے باعزت و عصمت رہا کر دی جاتی ہے مگر کسی لبرل لکھاریوں کو آج تک اس عمل کی تعریف لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اور دوسری طرف بے قصور عافیہ کو خود ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے مگر اس کا دکھڑا بھی کبھی کسی   نام نہاد لبرل کے نوک قلم سے نہ لکھا جا سکا۔ یہ کیا منافقت  کی حد نہیں ہے۔؟
                 مولانا صوفی محمدنفاذ شریعت کا مطالبہ کریں تو جیل  بھیجا جاتا ہےاور لا ل مسجد والےیہی  مطالبہ کریں تو آپریشن اور عمران خان  تین  ماہ سے اسلام آباد بلاک کر کے بیٹھا ہےسرکاری عمارات اور املاک کا حشر نشر کیا جاتا ہے۔ اس دھرنے سے  اسلام آباد کے باسیوں کی روزمرہ سرگرمیاں متاثر ہویں وہیں حکومتی معاملات اور اہم  ممالک سے آنے والے حکومتی  اورکاروباری وفود کے دورے بھی موخر ہوئے۔ مگر  اس سے مذاکرات۔ کیا یہ  واضح تضادنہیں  ہے ؟       
                   جس جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے ساتھ دیا اوروفاق پاکستان کے لیے  اپنا سب کچھ داو پے لگا دیا۔ آج اس کے رہنماوں کو دھڑا دھڑ پھانسیاں دی جا رہی ہیں مگر ہماری وزارت خارجہ اسے بنگلہ دیش کا داخلی مسلہ قرار دے کے جان چھڑا لی حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہے جس کے تحت 1971 کے واقعیات کی بنیاد پر کسی شخص پر کوئی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے نہ سزا دی جا سکتی ہے۔ حکومت پاکستان اس معاہدے کو لے کر بنگلہ دیش حکومت سے بات کر سکتی ہے مگر  ایسا نہیں کیا گیا۔  اسے آپ بے وفائی کہیں گے یا منافقت۔      
                    آج ہم  پورے پاکستان کو سوئی گیس  تیل اور دیگر اہم معدنیات فراہم کرنے والے بلوچستان اور بلوچوں کی حالت دیکھ لیں ۔   تو ہمیں اپنا وہ چہرہ نظر آئے گا جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔  کیا  من حیث القوم ہمارا روّیہ منفاقانہ نہیں؟ میں نے جن  باتوں کا ذکر کیا ہے بیشک وہ حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس نظام کا حصہ ہونے کے ناتے  اس نظام کو ووٹ دینے کے باعث ہم بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اوروں کی طرف انگلی اٹھانے والوں کو اپنی جانب مڑی اپنی ہی چار انگلیاں نظر انداز نہیں کرنی چاہیے۔۔


0 comments: