جمعرات، 30 اپریل، 2015

پکڑے جاتے ہیں''بلاگرز '' کے لکھے پہ ناحق

0 comments



چندروز قبل ایک ''بلاگستانی''بزرگ کو خواب میں دکھایا گیا کہ جو لوگ خود بلاگ لکھتے ہیں مگر دوسروں کے لکھے گئے بلاگ نہیں پڑھتے  تو روز قیامت نظر انداز کیے گئے تمام بلاگ لوہے کی بھاری تختیوں پہ لکھ کر انکے گلے میں ڈالے جائیں گے۔پھر وہ اونچی آواز میں لوگوں کو سناتے پھریں گے جسکا انہیں اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
عزیزان من میں نہیں چاہتا کہ آپ سب میرے وجہ سے اس کیفیت سے گزریں۔لٰہذا آپ سب لوگ آج ہی نہ صرف میرے تمام بلاگز لفظ بہ لفظ غور سے پڑھیں ، کمنٹس کریں بلکہ بلاگ  کے ممبر بنیں۔اگر دوسروں کا بھی مطلع کریں گے تو قیامت کے دن میں اسکی گواہی دوں گا۔  باقی بخشش صرف اللہ کے 
ہاتھ میں ہے۔ 
میرے بلاگ ''نقش فریادی'' کا ایڈریس نوٹ فرما لیں۔۔


نقش فریادی کے فیس بک کے پیج کا ایڈریس بھی  درج ذیل ہے۔


آپکا خیر اندیش و     دور اندیش۔۔ 
                                                                                                                                                                                                                                                                       
                                                                                                                                     سید عاصم علی شاہ    


بدھ، 29 اپریل، 2015

اللہ تعالٰی کے ہاں ایک مومن کی اہمیت۔۔

0 comments
اللہ تعالٰی کے ہاں ایک مومن کی اہمیت۔۔

اگر کسی مومن کی (ناحق) قتل کرنے میں زمین و آسمان کی تمام مخلوقات ملوث ہوں تو اللہ تعالٰی ان سب کو منہ کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔
جامع ترمذی،1398 ) سند صحیح ہے۔۔)

پیر، 27 اپریل، 2015

محسن نقوی

0 comments
محسن نقوی

واسطہ حسن سے کیا شدت جذبات سے کیا؟
عشق کو تیرے قبیلے یا میری ذات سے کیا؟

مری مصروف طبعیت بھی کہاں روک سکی۔
وہ تو یاد آتا ہے اسکو مرے دن رات سے کیا؟

پیاس دیکھوں یا کروں فکر کہ گھر کچا ہے۔
سوچ میں ہوں کہ مرا رشتہ ہے  برسات سے کیا؟

آج اسے فکر ہے کہ کیا لوگ کہیں گے محسن۔۔۔۔
کل جو کہتا تھا مجھے رسم و  روایات سے کیا؟؟

حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ جون ایلیا

0 comments
حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی.
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی.
بعد بھی تیرے جانِ جاں ، دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تیری یہاں، پھر تیری یاد بھی گئی.
اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی.
اس کے وصال کے لئے، اپنے کمال کے لئے
حالتِ دل، کہ تھی خراب ،اور خراب کی گئی.
تیرا فراق جانِ جاں! عیش تھا کیا میرے لئے
یعنی تیرے فراق میں خوب شراب پی گئی.
اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر

ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی.

جمعہ، 24 اپریل، 2015

کیا یہی دوستی ہے۔۔

0 comments
تحریر: سید عاصم علی شاہ

جدید دنیا میں زندہ قومیں اپنی  خارجہ پالیسی میں ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم رکھتی  ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کے لئے دوسرے ممالک سے تعلقات   کو بڑھایا جاتا ہے اور دوستی   کو مزید مضبوط کیا جاتا ہے۔ اچھے  دوستوں کو قربان کر کےنقصان تو اٹھایا جا سکتا ہے فائدہ نہیں۔مگر  یمن کے مسلے پر پارلیمنٹ  میں ہونے والی بحث سے لگتا ہے کہ ہماری نا سمجھی ہمیں لے ڈوبے گی اور ہم اپنے قابل اعتبار اور آزمودہ دوستوں کو کھو بیٹھیں گے۔ تین چار  دن کی اس بحث میں ملکی مفادات اور تعلقات سے متعلق پالیسی کے پرغیر محتاط انداز گفتگو اختیار کیا گیا۔ اس طرح پارلیمنٹ کے اندر اور باہر  قوم تین گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ایک وہ جن کی ہمدردیاں سعودیہ  عرب کے ساتھ ہیں  دوسرا انٹی سعودی طبقہ اور تیسرا گروہ  جو''صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں'' کے مصداق بظاہر  غیر جانبدار رہنے کا مشورہ دے رہا ہےمگر اندرون خانہ  دوسرے گروہ کا ہی ہم رکاب ہے۔  اول الذکرانٹی امریکن  مشہور ہیں جبکہ آخرالذکر  دونوں پرو امریکن۔
اس بحث کے دوران اکثر لوگوں کے چہرے کھل کر بلکہ دھل کر سامنے آئے۔  کیسے کیسے لوگ یہاں بھانت بھانت کی دانش سمیٹ کر لائے۔جو پارلیمنٹ میں تھے وہ  اندر  گرجے برسے اور جو  غیر پارلیمانی لوگ تھے وہ باہر نیوز چینلز اور اخبارات  میں بھڑکتے رہے ۔کسی نے سعودی جارحیت کا راگ الاپا، کسی نے ایرانی ناراضی سے ڈرایا،کسی نے اتحاد امت کے پارہ پارہ ہونے کی داستان سنائی۔ کسی نے اپنی خطابت کا رنگ جمایا اور کسی نے بخشو کاقصہ سنایا۔ اس ساری بحث میں اگر کسی نے معاملہ فہمی  ،سیا سی بصیرت  اور حقائق سے  بھرپور گفتگو کی ہے تو  وہ بی-این-پی کے چئیر مین محمود خان اچکزئی ہیں۔جنہوں نے پاکستان کے مسائل ،سعودیہ کے حالات  اور امت مسلمہ کو در پیش چلنجز  اور انکی وجوہات پر بات کی ۔مگر افسوس میڈیا نے انکے خطاب کو کوئی کوریج نہیں دی بلکہ یوں کہا جائے کہ جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا۔ورنہ جس میڈیا  کی نظر سے راجیش کھنہ کی بیماری  ،  رانی مکھر جی کا موٹاپااور ہالینڈ کی مرغی کے ساتھ کھیلنے والی بلی بھی نہ چھپ سکی اس نظر سے اچکزئی صاحب کی 30 منٹ سے زائد دورانیے کی اتنی اہم  گفتگو کیسےمس ہو گئی۔
صاحبزادہ حامد رضا  نے کہا کہ ہم حکومت کو پارلیمنٹ کی قرارداد سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے نہیں دیں گے۔صاحبزادہ صاحب نے واضح نہیں کیا  کہ وہ اسی غیر آئینی اور دھاندلی کی پیدا وار پارلیمنٹ کی قرار داد کی بات کر رہے ہیں جس کے باہر چار ماہ تک دھرنا مار کے بیٹھے رہے۔ایک اور  صاحب ہیں ایک ملک گیر مذہبی جماعت  کے سر براہ بھی ہیں۔ پاک آرمی کو پیشکش کر چکے ہیں کہ اگر اجازت ہو تو افغانستان جا کر طالبان کا صفایا کر دیں گے۔ مگر موصوف کو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کے خلاف لڑنے والے طالبان کا خیال نہیں آیاشائد کسی نے بتایا ہوگا  کہ یہ اصلی والے  طالبان نہیں ہیں اصل خطرہ تو سرحد پار  والے طالبان ہیں تو پھر نقلی طالبان بلکہ ظالمان  کے خلاف  اپنی توانائی کیوں صرف کریں بہر حال  اگر انہیں قوم کی تکلیفوں اور فوج  کی مشکلات  کا اتنا خیال تھا تو وزیرستان ہی چلے جائیں ۔ سنا ہےموصوف نے بھی سعودی عرب کی مدد کرنے کی مخالفت کر دی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ہم حرمین شریفین کے لئے تو جان بھی  دے سکتے ہیں مگر آل سعود  کی حکومت کے لئے نہیں۔اب انہیں کون سمجھائے کہ اللہ تعالیٰ نےہی  آل سعود کو حکمران بنایا ہے اور وہی خادم حرمین شریفین بھی ہیں اور سعودی سرحدوں پر حملہ در اصل حرمین شریفین پر حملہ ہے۔
قارئین کرام  میری باتیں  آپ کو شائد غیر مربوط محسوس ہوں مگر مدعا ایک ہی ہے۔کہانیاں مختلف مگر مقصد ایک ہی ہے۔  جب گیارہ ہزار تین سو کلو میٹر دور جب امریکہ کو افغانستان سے خطرات لاحق ہوئے تو  '' مُکا مینوفیکچرر انڈسٹری'' کے پہلے اور آخری روح رواں صدر پرویز مشرف المعروف بیک فون لم لیٹ سرکارنے لاجسٹک سپورٹ  کی پیش کش کردی اتنی عجلت اور سرعت سے کہ  فون کرنے والا وزیر خارجہ اور اعلٰی امریکی حکام تک حیران رہ گئے جس کا ذکرسابق امریکی  وزیر خارجہ  کولن پاول نے اپنی کتاب میں بھی کیا اسکے علاوہ  پارلیمنٹ سے لے کر میڈیا تک بہت سوں  نے انکی ہاں میں ہاں ملاکر  گویا قومی خدمت سر انجام دی مگر انہی دور اندیش لوگوں  میں سے کسی کو سعودی سرحدوں کی طرف بڑھتے حوثی  باغی  جو  دور مار مزائلوں سے بھی لیس ہیں شائد موسمی خرابی کے باعث  نظر نہیں آئے۔نہ ایران ے روزانہ کی بنیاد پر یمن جانے والی پروازوں کا علم ہوگا نہ باغیوں کے علاقوں میں  نام نہاد امریکی این-جی-اوز   کی سرگرمیوں  سے  آگاہی   ہو گی۔ جوصاحب فہم فراست  کل تک  افغانستان پر امریکی جارحیت پر بغلیں بجاتے تھے آج سعودیہ کا جارح کہہ رہے ہیں ۔ جناب کیا کہنے۔بھٹو اور ضیاء کی روس مخالف افغان پالیسی کے ناقدین امریکہ کے افغانستان پر حملے کےحامی تھے اور  آج بھی ہیں۔تب مخالفت اور یہاں حمایت ۔ یہ تضاد کیوں۔؟ خیر اسفند یار ولی  خان نے تو صاف کہہ دیا کہ یمن میں سعودیہ کی مدد کے نتائج ہمیں بلوچستان میں بھگتنے پڑیں گے۔ اور ہمیں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا؟
دوسری  طرف دیکھئے  کچھ لوگ سعودیہ کی مدد کرنے کے بجائے سعودی عرب  اور یمن کے درمیان ثالثی   کرانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔  لیکن جب امریکہ کی ذاتی خواہش پر  طالبان اور امریکہ کے درمیان قظر میں مذاکرات کا آغاز ہوا تو  یار لوگوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ۔بیچارے عمران خان بھی اسی طرز پر پاکستانی طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں مدد کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے پشاور میں طالبان کا  دفتر کھولنے کی تجویز  دی تھی پھر کیا تھا ''ثالث پسندوں  '' سے یہ برداشت ہی نہیں ہو کہ انکے علاوہ کوئی ثالثی کی بات کرے یا ثالثی کرائے-آخر انکی ثالثی آئی –ایس-او سرٹیفائیڈ ہے کوئی مذاق تھوڑی ہے۔انہوں نے کپتان صاحب کے وہ لتے لئے کہ خدا کی پناہ۔آج ثالثی  مگر کل ثالثی کی مخالفت ۔چہ معنی؟  اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا کے ۔تضادات کی داستان طویل ہے  کیا کیا بتا     ئیں۔
بات ہو رہی تھی قومی مفاد کی۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان  برادرانہ تعلقات کا آغاز 1947 ء میں قیام  پاکستان  سے ہوا۔ پھر یہ تعلقات ،1948 ، 1965 کی پاک بھارت جنگوں میں ہر آزمائش پر پورے اترے پھر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہو گیا حسب وعدہ امریکی بحری بیڑہ مدد کو  نہ آیا مگر عرب اس بار بھی مدد کو آئے۔  1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد  جب عالمی پابندیاں لگی تو عرب ملکوں  خصوصاً سعودی عرب  نے  چار سال تک  مفت تیل دے کر ہماری معیشت کوسہارا دئے رکھا۔1999 میں   کارگل وارہو یا دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی  پندرہ سالہ جنگ ،2005 میں آنے والا زلزلہ ہو یا 2010 کا تباہ کن سیلاب سعودی بھائی ہر موقع پر ہمارے شانہ بشانے کھڑے نظر آئے۔ انہوں نے کبھی دی جانے والی امداد کا حساب مانگا نہ بدلے میں کچھ چاہا۔نہ کبھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی نہ ہماری خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ عالمی سطح پر اور یو-این-او میں ہر مسلے پر پاکستان کی دو ٹوک حمایت کی۔ علاوہ ازیں 30 لاکھ سے زائد پاکستانی عرب ملکوں میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں جو اربوں ڈالر پاکستان بھیج کر ملکی معیشت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اور یار لوگ ان تعلقات کو شریف برادران کے ذاتی تعلقات  قرار دے کر رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے گزشتہ چند ہفتوں سے جاری  ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات  بلاآخر  نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ اور  ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔اس  معاہدے کے بعد ایران  ایٹمی اسلحہ نہیں بنا سکے گا۔بدلے میں ایران پر سے اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ایسا صرف اس لئے ممکن ہوا کہ ایرانی معیشت عالمی پابندیوں کے باعث مشکلات کا شکار تھی جس پر مجبوراً ایران کو سمجھوتا کرنا پڑا۔ مگر اپنے تمام تر مسائل اور بیرونی دباؤ کے با وجود پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام  کامیابی سے مکمل کیا   اس  عظیم کامیابی پر سیاسی وعسکری قیادتوں  کی ہمت   اور مستقل مزاجی  کی داد دی جانے چاہیئے کہ بھٹو کے شروع  کردہ  ایٹمی پروگرام کو باقی آنے والے تمام قیادتوں نے  اپنی ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھا ۔ مگر اس سارے عمل میں عرب ریاستوں خصوصاً سعودی عرب کے تعاون کا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔جنہوں نے  شروع سے لے کر آخر تک ہمہ قسمی تعاون کیا۔
یہ تعاون ، احسانات اور تعلقات اپنی جگہ  مگر سب سے بڑھ کریہ کہ وہاں مسلمانوں کے سب سے مقدس مقامات  حرمین شریفین واقع ہیں جن  کی حفاظت ہر مسلمان کے ذمہ ہے۔ ہم  کیا سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نہ گئے تو حرم کا دفاع   کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حرم کی حفاظت اللہ پاک  خود کر لیں گے جیسے ابراہ کے آنے پر کی تھی۔لیکن یہ ایک موقع ہے  اس سعادت کو پانے کا اور خوش نصیبوں میں اپنا نام لکھوانے کا۔اگر حرمین شریفین کی طرف غلط ارادے لے کر  بڑھنے والے  باز نہیں آ رہے تو ہم کیوں شرما رہے ہیں۔ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ  سعودی سرحدوں کی طرف بڑھتا خطرہ دراصل سرزمین حرمین کے لئے خطر ہ ہے۔جس کا دفاع سعودی عرب سمیت ہر مسلمان کا فرض ہے۔لہٰذا یمن کی طرف سے اٹھنے والے  خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
 مذاکراتی عمل  ضرور شروع کیا جانا چاہیئے مگر یہ بھی دیکھا جائے کہ دوسری پارٹی  مذاکرات کرنا بھی چاہتی ہیں کہ نہیں۔ انکی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، انکے مقاصد جاننے کی کوشش کی جائے۔انکے  منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کا دماغ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایرانی جنرل  کی طرف سے سعودیہ کو دی جانے والی واضح  دھمکی  یہ  ثابت کرتی ہے کہ ایران  یمن میں دلچسپی لے رہا ہے مگر ساتھ ہی یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ایران کی وہاں دلچسپی کیا وجہ  ہے اسے کس بات کی  جلدی ہے۔اگر حوثیوں کی منزل سعودی عرب نہیں تو انہیں  ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ امن چاہتے ہیں۔انہیں سعودی سرحدوں سے دور ہٹ جانا چاہیئے۔ہتھیار ڈال کر  مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیئے۔یاد رکھیں اگر سعودیہ عدم استحکام کا شکار ہوا تو کوئی مسلمان ملک نہیں بچے گا۔ اگر ہم حجاز مقدس کی حفاظت کرنے کےلئے راست اقدامات کے  بجائے تاویلیں گھڑنے بیٹھ جائیں گے تو سمجھ لیں دشمن اپنا منصوبے میں آدھا کامیاب ہو چکا ہے۔ سرزمین حرمین  مسلمانوں کی مذہبی اور ملی  وحدت کی نشانی ہے مسلمانوں پر غلبے کے لئے اس پر قبضہ ضروری ہے۔ جیسے سلطنت عثمانیہ   جو کہ خلافت  کا تسلسل اور مسلمانوں کی واحد طاقت تھی جس سے یورپ کے ایوان لرزتے تھے جب  غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی بے حسی کے باعث اس کا شیرازہ بکھرا تو اس کے  بعد مسلمان سنبھل نہ سکے اور  انہیں  سرحدوں کے نام پر  ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ  پھر وہی تاریخ  دہرائی جائے ہمیں ہر قدم  سوچ سمجھ کر  اٹھانا ہوگا۔

جمعرات، 16 اپریل، 2015

''پارلیمنٹ''

0 comments

عرب ممالک نے پاکستان کی مضبوط جمہوری روایات سے متاثر ہو کر فیصلہ کیا ہے کہ اب دنیا میں ''کہیں بھی''  جنگ ہو سیلاب آئے یازلزلہ تباہی مچائے ہم  یونہی منہ اٹھائے مدد کو نہیں جائیں گے بلکہ پارلیمنٹ سے باقاعدہ اجازت لی جائے گی۔یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
(خیال آرائی)

منگل، 31 مارچ، 2015

یمن کے حالات اور پاکستان

0 comments

یمن میں حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان کافی عرصے سے لڑائی جاری ہے۔ملک کےوسیع علاقے پرباغیوں کا  قبضہ ہے۔ان کی بڑھتی  ہوئی تخریبی سرگرمیوں  اور سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کو  درپیش  ممکنہ خطرات کے پیش نظرسعودیہ  کے نئے بادشاہ نے باغیوں پر براہ راست حملے کا حکم دے دیا ہے۔ حکومت  پاکستان نے یمن کی صورتحال کے حوالے سے سعودیہ عرب کی حمایت کااعلان کیا ہے۔ تاہم پاکستان نے  براہ راست فریق بننے کے بجائے اس مسلے کے پرامن حل کی کوششوں پر زور دیا ہے۔
پاکستان کئی سالوں سے  خود دہشت گردی کا شکار ہے  اور کوئی نیا محاز کھولنا عقلمندی نہیں ہوگی۔   یہاں بات صرف آل سعود کی حکومت کی نہیں بلکہ حرمین شریفین کے اور روضہ رسولﷺ  کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ جو ہر مسلمان پر لازم ہے۔ جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے درست کہا کہ اگر سعودیہ عرب   اور حرمین شریفین کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے تو پاکستان  ہر حال میں سعودیہ کا دفاع کرے گا۔ تمام مسلم ممالک کا اس حوالے سےیہی موقف ہے۔خصوصاً عرب لیگ نے واضح طور پر اس  عزم کا اعادہ کیا ہے۔
ہمارے ہاں گرما گرم ماحول بن گیا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں نت نئی بحثیں چھڑ گئی ہیں۔ چھوٹے چائے خانوں سے لے کرپارلیمنٹ تک ، پیالی میں طوفان اٹھانے کے ماہر، پراپیگنڈا ایکسپرٹس،  دانشور،صحافی اوراینکرز ، مقررین حضرات  ،علماء کرام تک سب  رائے زنی میں مشغول ہیں۔ کوئی فوج کو سعودیہ بھیجنے کی بات کر رہا ہے تو کوئی شدید مخالفت کر رہا ہے۔کسی کے نزدیک یہ یمن کا داخلی مسلہ ہے  کوئی اسے سعودیہ کی جارحیت قرار دے رہا ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ یہ سب ایران کی شہ پر ہو رہا ہے ۔یہاں  لوگوں رائے میں واضح  تضاددیکھنے میں آ رہا ہے۔یہ تضاد بلاوجہ نہیں بلکہ انکی قلبی وابستگی،طبعی رجحان اور مذہبی نقطہ نظر کا عکاس ہے۔شام اور عراق میں ایران کی مداخلت کے حامی  سعودیہ کے یمن پر حملے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں اور حکومت  کو اس معاملے سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں کیونکہ  اس سے ایران کی ناراضی کا خطرہ ہے۔ایک دوسرا طبقہ سعودیہ کی ہمہ قسمی مدد کی ترغیب دے رہا ہے۔
حالانکہ غیر جانبدارانہ رائے یہ کہ ایران کا  یمن میں کیا کام؟ جبکہ  ایران اسکی مسلسل تردید بھی کر رہا ہے کہ وہ یمن میں خرابی کا ذمہ دار نہیں ہے۔مگر دوسری طرف حزب اللہ  کے حسن نصراللہ سعودیہ کو یمن میں مداخلت پر وارننگ دے رہے ہیں۔کچھ ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اس سارے معاملے میں ضرور دلچسپی لے رہا ہے شام اور عراق میں ایران کی  واضح مداخلت سامنے رکھتے ہوئے سعودیہ کا محتاط ہونا لازم تھا۔اس سے پہلے کہ شام ،عراق اور یمن میں سلگتی آگ سعودی عرب تک پہنچے اس نے اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر یمنی باغیوں  پر حملہ کر دیا۔سعودیہ کا ایسا کرنا چاہئے تھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔
اصل میں مغرب کےشاطر دماغ برسوں سے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے خواہش مند ہیں تاکہ اسلامی دنیا   کی طاقت اور وسائل کوآپس میں لڑا کر تباہ و برباد کر دیا جائے۔''عرب بہار'' کے خوشنما نعرے کے تحت شروع ہونے والی تحریکوں میں اندرون خانہ کیا ہو رہا ہےیہ اب ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ شام میں سنی اپوزیشن کو اسلحہ فراہم کرنے والےممالک عراق میں شیعہ حکومت  کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ وہی طاقتیں یمن  میں  حکومت مخالف القائدہ پر حملے کرتی ہیں اور دوسری طرف حوثی باغیوں کو امداد دے رہی ہیں۔مقصد صرف ایک ہے کہ  مسلمانوں کا آپس میں لڑا کر  انہیں کمزور کرو  امداد اور اسلحے کے عوض ان کے وسائل  پر ہاتھ صاف کرو۔ مسلم دنیا کو اب سنجیدگی سے  اپنے مسائل اور حالات پر غور کرکے مناسب فیصلے بروقت کرنا ہونگے ورنہ یہ حالات کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
استعماری قوتیں  ہمیشہ مسلمانوں کے آپس کے اختلافات اور اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔آج بھی مسلم ممالک میں لسانی، علاقائی اور  فرقہ وارانہ مسائل کو ہوا دے کرتصادم کا  ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ شیعہ اور سنی مسالک میں واضح اختلاف موجود ہے۔ دونوں  مذاہب کے لوگ تقریباً تمام مسلم ممالک  میں پھیلے ہوئے ہیں۔مغرب کا خیال ہے کہ  اگر ان دونوں گروہوں کے درمیان  جنگی کیفیت پیدا کر دی جائے تو  سارا عالم اسلام جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ اور مغربی دنیا اس نہج پر کیوں سوچ رہی ہے۔؟  ان کے اس منصوبے کا انہیں کیا نتیجہ نظر آ رہا ہے۔؟
جواب بڑا سادہ سا ہے۔ ایران میں انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب پسندوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ان کے ذہنوں میں اس انقلاب کو ساری دنیا میں پھیلانے کا منصوبے پنپنے لگا۔ اسی سوچ کے تحت دوسرے ممالک میں پھیلے اپنے ہم مذہب لوگوں کا متحرک کرنا شروع کر دیا۔ایسا لگتا ہے کہ  ''انقلاب پسندوں" کے توسیع پسندانہ  عزائم مسلم دنیا کوآپس میں  لڑانے کی مغربی خواہش کو  حقیقت میں بدل دے گی۔موجودہ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ  شام  میں براہ راست فوجی  مداخلت،عراق اور لبنان میں  اپنے حمائتیوں کی کھلی پشت پناہی کے بعد  اب ایران کی نظریں یمن پر لگی ہیں۔ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای قریبی ساتھی اور با اثر رکن پارلیمنٹ  علی رضا ذکانی کا کہنا ہے کہ  تین عرب ممالک شام، عراق اور لبنان کے بعد اب یمن بھی ہماری جیب میں آ گیا ہے۔اب ہماری نظریں سعودیہ عرب پر ہیں۔ اس طرح کی انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ  خطے میں جنگ کے بادل منڈلارہے  ہیں۔ سب سے افسوس ناک پہلو  یہ ہے کہ یہاں مسلمان ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔
یہا ں ایک اور  بات کا ذکر کرتا  چلوں کہ مختلف مذہب ،زبان ،سوچ  اور  تہذیب و تمدن کےحامل دو   ملک بھارت اور ایران میں  ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں  ایک عرصے سے اپنی سرحدوں اور اثر و رسوخ میں اضافے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔اسکی خاطرانہوں نے  خطے میں امن و امان کی صورتحال کو خطر ناک بنا دیا ہے  اس کھیل  میں انہیں میں مغربی قوتوں کی  آشیرباد  حاصل ہے۔ اپنے ہمسایہ ممالک میں مداخلت، سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ اور مخصوص گروہوں کی پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی  بات نہیں ہے۔عالمی طاقتیں بھارت کو جنوبی ایشیا اور ایران کو مشرق وسطٰی میں طاقتور دیکھنا چاہتی ہیں۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ مخاصمت  بیرونی مداخلت کے ساتھ ساتھ مقامی علماء کے غیرسنجیدہ رویے  کا نتیجہ ہے۔ اول توموجودہ حالات کے پیش نظر آپس کے  اختلافات کو ختم  کرنے کی کوشش کی جائے اگر ایسا ممکن  نہیں تو کم سے کم برداشت کا ماحول پیدا کیا جائےاور ایک دوسرے کے مقدسات اور مذہبی جذبات کا احترام کیا جائے۔ تاکہ دلوں میں پلنے والی فرقہ وارانہ نفرتیں ختم  نہیں تو کم ضرور سکیں۔
نئے سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ بحرین، عراق ،اورشام کے بعد اب یمن میں  باغیوں کی بڑھتی سرگرمیاں ایران کی کھلی  حمایت اور  امریکی دوغلے پن کے  کے بغیر ناممکن تھیں۔ اس لئے انہوں نے امریکہ کو اعتماد میں لئے بغیر یہ فیصلہ کیا۔ ترکی، اردن،قطر،کویت،مراکش،سوڈان،متحدہ عرب امارات کے طیارے اس آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایران اور روس کے سوا تمام اہم ممالک نے اس آپریشن کی حمایت کی ہے۔یہاں ایران کے کردار پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ اگر ایران واقعی  امریکی عزائم کی راہ میں حائل ہونا چاہتا ہے جیسا کہ وہ ہمیشہ ظاہر کرتا ہے  تو اسے مسلم ممالک کو مضبوط کرنا چاہیئے تھا  مگر موجودہ منظر نامہ اس کے بر عکس نظر آ رہا ہے۔
سعودی عرب کی پوزیشن 80 ءکی دہائی کے پاکستان سے کچھ مختلف نہیں ہے جب روس کے افغانستان پر حملہ کےبعد پاکستان یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ وہ کرے تو کیا کرے؟آگے بڑھ کر روس کا راستہ روکے یا آنکھیں بند کر کے بلی کا انتظار کرے۔ اس وقت کی قیادت نے حالات کے پیش نظر جو فیصلہ کیا اس پر بحث کا یہ وقت نہیں ہے۔ مگر جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس جنگ میں حصہ نہیں بننا چاہیئے تھا ان سے سوال ہے کہ کیا پھر روس صرف افغانستان تک محدود رہتا؟ اگر نہیں تو پاکستان کا آج کیا حال ہوتا۔ اور جو لوگ پاکستان کی افغان جنگ میں شمولیت کو درست سمجھتے ہیں وہ بھی آج ملک کے حالات دیکھ لیں۔ آج امریکہ کی وجہ سے ملک میں بد امنی اور دہشت گردی ہے  تب یہی حالات روس کی وجہ سے پیدا ہوتے۔  دونوں  صورتوں میں یہی کچھ ہونا تھا کیونکہ پاکستان شروع سے عالمی طاقتوں کے نشانے پر ہے۔ لہٰذا آج  کے حالات میں جو بھی فیصلہ کیا جائے سوچ سمجھ کر اور ملکی اور امت مسلمہ کے مفاد کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔